شکاری کتا رکھنا جائز ہے، قرآن شریف میں باضابطہ اس کی اجازت ہے۔ شکاری کتا اس حد تک جائز ہے کہ شکاری کتے کے شکار کو ذبح کرنا بھی ضروری نہیں ہوتا۔ قرآن شریف میں ہے:
جب کتے کسی کو پکڑ لیں تو وہ جانور تمہارے لیے حلال ہوجائے گا جبکہ تم بسم اللہ کہہ کر چھوڑ دو۔۱؎
اگر آدمی بِسْمِ اللہِ کہہ کر کتّے کو چھوڑ دے تو کتّے کا پکڑنا ذبح کے قائم مقام ہوجاتا ہے جبکہ وہ کتّا تربیت یافتہ ہو۔
غرض شاہ ابوسعیدکی ذمہ داری میں شکاری کتوں کو ٹہلانے کی ذمہ داری کا اضافہ ہوگیا اور کام چلتا رہا۔ جب ایک مدت گزر گئی تو شیخ نے اُن کے چہرے پر تغیر دیکھا۔ ایک بار پھر بوڑھی عورت سے کہا کہ ایک مرتبہ اور ان کے اوپر کچرا ڈال دو۔ اس عورت نے شاہ ابوسعید کے اوپر کچرا ڈال دیا۔ وہ رونے لگے اور عورت سے معافی مانگنے لگے کہ مجھے معاف کردینا، تم کچرا لے کر جارہی تھیں، میں سامنے آگیا، میری وجہ سے تیری ساری محنت رائیگاں ہوگئی۔ اور کہا کہ تو تو اپنا کام کرچکی تھی لہٰذا یہ کچرا میں اُٹھا کر ڈالتا ہوں۔ پھر شاہ ابوسعید خود کچرا سمیٹنے لگے۔ اس عورت نے شیخ کو اطلاع کی کہ جب اس مرتبہ میں نے اُن کے اوپر کچرا ڈالا تو اُن کو غصہ آنے کی بات تو دور ہے، وہ بچارے اتنے نرم ہوگئے کہ انہوں نے معافی چاہی اور رو رہے تھے، انہوں نے خود کچرا اُٹھاکر پھینک دیا۔ پھر شاہ نظام الدین بلخیؒ نے فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ شاہ ابوسعید جس کے کام کے لیے آئے تھے اُس کی زمین تیار ہوگئی۔ پھر اُن کو اپنی مجلس میں بٹھایا اور ذکر و شغل بتایا، علوم عطا کیے، تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ تب کہیں جاکر شاہ ابوسعید شیخ بن گئے۔ مشائخ کا سلسلہ انہی کے راستے سے ہوتا ہوا جاتا ہے۔
-----------------------------------------------------
۱؎: المائدۃ:۴۔