کے بجائے تہجد میں اُٹھنے والے ہمارے مریدین کے لیے ایندھن جلاکر پانی گرم کردیا کرو۔ شاہ ابوسعید نے کہا کہ ٹھیک ہے۔
اب آپ اندازہ لگائیے کہ تہجد میں اُٹھنے والے مریدین کو گرم پانی مہیا کرنا کتنا مجاہدےوالا کام ہے۔ اگر مریدین تین بجے اُٹھتے ہیں تو انہیں پانی دو بجے اُٹھ کر گرم کرنا پڑتاہے۔ اس پر بھی کچھ وقت گزر گیا۔ اب کوئی آدمی سوچے کہ اس طرح پانی گرم کرنا سنت ہے، واجب ہے یا مستحب ہے۔ پہلے زمانے کے لوگ ایسا نہیں سوچتے تھے بلکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ نفس کو مارنے کی تدبیریں ہیں۔ اس کے بعد حضرت نظام الدین بلخی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ دیکھنا چاہا کہ ان کے ذہن میں کتنا کبر ہے؟ نجاست صاف کرنے کے لیے ایک بوڑھی عورت آیا کرتی تھی، حضرت نے اُس سے کہا کہ ٹھوکر یا کسی اور بہانے غلاظت کا ٹوکرا شاہ ابوسعید کے اوپر ڈال دینا۔ چنانچہ شاہ ابوسعید جارہے تھے، برابر سے یہ بوڑھی عورت گزری اور کسی بہانے سے غلاظت کا ٹوکرا ان کے اوپر ڈال دیا۔ ان کے جسم پر اوپر سے نیچے تک غلاظت ہی غلاظت لگ گئی۔ اب شاہ ابوسعید کو بہت غصہ آیا ، صرف گھور کر دیکھا اور کہا کہ یہ گنگوہ نہیں ہے، اگر گنگوہ ہوتاتو پھر میں تیری خبر لیتا۔
شیخ کو بوڑھی عورت نے آکر اطلاع دی کہ میں نے ٹوکرا اُن کے اوپر ڈال دیا۔ شیخ نے پوچھا کہ پھر کیا ہوا؟ اُس نے کہا کہ انہوں نے کچھ زیادہ نہیں کہا، بس گھور کر دیکھا اور کہا کہ گنگوہ نہیں ہے، اگر گنگوہ ہوتاتو پھر میں تیری خبر لیتا۔ حضرت شیخ نے فرمایا کہ ابھی دماغ سے خناس نہیں نکلا۔
پھر شاہ ابوسعید نے دوبارہ وہی کام کرنا شروع کیا۔ حضرت نظام الدین بلخی ؒ کے پاس شکاری کتّے تھے۔ شاہ ابوسعید کی ذمہ داری میں شکاری کتّوں کا خیال رکھنے اور ٹہلانے کا اضافہ کردیا۔