فرمائیں گے میں وہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ حضرت نظام الدین بلخی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے پھر ہمارا رویہ بدل جائے گا تو بُرا نہیں ماننا کیونکہ ہمیں آپ کی تربیت کرنی ہے۔
سب سے پہلے دو کام ذمے لگائے۔ ایک تو یہ کہا کہ تم ہماری مجلس میں بیٹھنے کے قابل نہیں ہو، تمہارے اندر اتنی استعداد نہیں ہے کہ تم ہماری بات کو سمجھ سکو۔ (یہ بھی ایک استعداد کی بات ہوتی ہے کہ کب آدمی دین کی بات لینے کے قابل ہوتا ہے) دوسری بات یہ ہے کہ جتنے مریدین میرے پاس آئے ہوئے ہیں اُن سب کا بیت الخلاء صاف کرنا آپ کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ منظور ہے۔ اب روزانہ بیت الخلاء صاف کرتے اور مجلس میں نہیں بیٹھتے تھے۔ جب کچھ دن گزر گئے تو شاہ نظام الدین بلخیؒ نے فرمایا کہ تم ہماری مجلس میں بیٹھ سکتے ہو، مگر کچھ بول نہیں سکتے۔
اور خاموش رہنا معمولی نہیں بات ہے۔ بولنے سے بحث ہوتی ہے۔ بحث آدمی کو صحیح بات قبول کرنے نہیں دیتی۔ ہمیشہ کے لیے یہ قاعدہ یاد رکھ لیجیے کہ اگر واقعتا قرآن و حدیث کا علم چاہیے تو کسی صاحبِ علم کے سامنے خاموش بیٹھ کر سنیں۔ وہ جو سوال کرے تو یہی کہے کہ مجھے نہیں آتا۔ یہ قاعدہ ہے۔ سوال و جواب یعنی تعلیم و تعلّم کرنے کا مقام اسکول اور مدرسہ ہے۔ اگر کوئی مدرسے میں عالم بننے کے لیے داخل ہوگیا تو وہاں پر سوال نہ کرنے سے کچھ نہیں آئے گا بلکہ سوال کرنے ہی سے کچھ آئے گا۔ لیکن عام سطح پر سوال نہ کرنے سے آتا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی ایک عادت ہے۔
حضرت نے اُن سے کہا کہ آپ کو میری مجلس میں آنے کی اجازت ہے لیکن کچھ کہنے کی اجازت نہیں ہے اور کہا کہ تمہارے کام میں ترقی کی جاتی ہے، اب تم بیت الخلاء صاف کرنے