ایسا نہیں ہے کہ صحابہ مجاہدات اختیار کرکے ایمان کو کامل کئے بلکہ اُن کے ایمان کا کمال اُن سے ویسے مجاہدات کرواتا تھا۔ مگر اُنہیں مجاہدات کے ذریعے سے ترقی ضرور ہوتی تھی لیکن اگر آدمی کے ایمان میں کمال نہیں ہے تو پھر وہ قربانی نہیں دے سکتا۔
ایک صحابی قبل از اسلام محبوبہ کے ساتھ گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ محبوبہ گا اور ناچ رہی ہے۔ ان کو مستی آگئی۔ محبوبہ نے کہا کہ جب تک شراب اور کباب نہ ہو تو ملنے کا کیا مزہ ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ میں ابھی اونٹ کا جگر لے کر آتا ہوں، اُس کا کباب بنائیں۔ بازار میں جارہے تھے کہ راستے میں حضور ﷺ مل گئے۔حضور ﷺ نے فرمایا کہ کب تک غفلت میں پڑا رہے گا؟ حضور ﷺ کی نظر مبارک پڑتے ہی اُن کی کایا پلٹ گئی اور فوراً لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌرَسُوْلُ اللہِ پڑھ لیا۔ اب جب شراب اور کباب کو چھوڑ کر گھر واپس ہوئے تو محبوبہ دروازے پر کھڑی ہے کہ کب شراب اور کباب لے کر لوٹیں گے۔ وہ دروازے کے سامنے سے گزرے تو محبوبہ سوچنے لگی کہ یہ پاگل تو نہیں ہے، میں یہاں کھڑی ہوں اور یہ آگے جارہا ہے۔ محبوبہ نے آواز دے کر پوچھا کہ تم آگے جارہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں اب مجھے آگے ہی جانا ہے، میرا تجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
صحابہ کے ایمان میں یہ خصوصیت تھی کہ حضور ﷺ کی نظرو صحبت کی برکت سے ایمان میں کمال آجاتا تھا۔ اُس کمال کے ذریعے سے صحابہ بڑی سے بڑی قربانیاں دیتے تھے۔ ان قربانیوں کے ذریعے سے اُن کو اور ترقی ہوتی تھی۔ بعد میں جیسے جیسے حضور ﷺ کے زمانے سے دُوری ہوتی چلی گئی تو ولایت میں فرق آنے لگا۔ اب ایمان میں آنے کے باجود لوگوں میں ضعف اور کمزوری ہوتی چلی گئی۔ بزرگوں نے اس کمزوری کا علاج اپنے اجتہادات، کوششوں اور مختلف طریقوں سے کرنا شروع کیا۔ پہلے اتنی ہمت آجاتی تھی کہ آدمی واقعتاً بڑی سے بڑی