ہے کہ اس ذریعہ کو اختیار کرکے آدمی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرلے۔ جو ضروری چیزیں ہیں جیسے فرض نمازیں، واجبات، سنتیں و مستحبات وغیرہ آدمی کو یہ سب کرنا ہی کرنا ہے۔ جب آدمی غیرضروری چیزوں کو کررہا ہے تو ضروری کو کیسے چھوڑ دے گا۔
مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے لوگوں کو مرید کرنا شروع کیا تو اُن لوگوں میں بہت تیزی سے اثرات شروع ہوگئے مگر میرے دل میں ایک بات آئی کہ کتنے لوگ میرے پاس آرہے ہیں؟ اور کتنے لوگوں کو میں صحیح راستہ بتارہا ہوں؟بستیوں کی بستیاں اپنے غیرمسلم ہونے کا اعلان کررہی تھیں۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب ہندوستان اور پاکستان ایک ہی تھے۔ تبلیغی تحریک ہندوستان کی تقسیم سے پہلے شروع ہوئی۔ اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو اُمت کا غم دے دیا کیونکہ آپ کو ''قطب الارشاد'' بنانا تھا۔میں نے عرض کیا تھا کہ جب آدمی کو ولایتِ خاصہ ملتی ہے تو اُس کو اہلِ تشریع یا اہلِ تکوین میں لے لیا جاتا ہے تاکہ اس سے لوگوں کی رُشد و ہدایت کا کام لیا جائے۔ کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ اُن کو ''قطب'' بنانا چاہتے تھے اس لیے اُن کو پوری اُمت کا درد دے دیا۔ اب وہ اُمت کے لیے روتے، اور خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگتے کہ اے اللہ! کوئی تدبیر پیدا فرمادیجیے۔ مولانا الیاس صاحب ؒ، اللہ تعالیٰ کے سامنے اس طرح روتے اور بلبلاتے تھے کہ جیسے کسی عورت کا ایک چھوٹا بیٹا مر جائے تو وہ روتی ہے۔ اُن کے دل میں اُمت کا اتنا درد اُٹھنے لگا اور راتوں کی نیند اُڑ گئی، کروٹیں بدل بدل کر اپنا وقت گزارتے تھے۔ بیوی نے پوچھا کہ آپ اتنے بے چین ہیں، آخر آپ کے ساتھ کیا قصہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ مت پوچھو کہ میرے ساتھ کیا قصہ ہے، اگر میں تم کو بتادوں تو پھر بے چین ہونے والا ایک نہیں رہے گا بلکہ دو ہوجائیں گے۔