یہاں پر ایک بات عرض کردوں کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو منافقین نے بے وقوف کہا۔ ہم نے بھی نہیں سوچا کہ انہوں نے ایسا کیوں کہا؟
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوْا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوْا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ۱؎
کیا وجہ تھی کہ منافقین انہیں بے وقوف کہتے تھے؟ جب آدمی اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ محبت کرنے لگتا ہے تو اُس کے کاموں کا رجحان اللہ تعالیٰ کی طرف ہوجاتا ہے۔ اُس کے بہت سے کام لوگوں کو دنیاوی مصلحت کے خلاف نظر آتے ہیں اور لوگ اُس کے کاموں پر کہتے ہیں کہ یہ تو کوئی طریقہ نہیں ہے، یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی، یہ بے وقوف ہے اس دنیا میں ایسی بات کررہا ہے۔
اب مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو کچھ کررہے تھے کہ زمینیں بیچ بیچ کر لوگوں کو مسجد میں بٹھارہے تھے، لوگ کہہ رہے تھے کہ یہ بے وقوفی ہے۔ حالانکہ مولانا کو معلوم ہے کہ بے وقوفی کیا ہے؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَكِنْ لَا يَعْلَمُونَ۲؎
جو بولنے والے ہیں وہ خود بے وقوف ہیں اُن کو کیا معلوم۔
جو کچھ یہ کررہے ہیں یہ سب اُسی کے لیے کررہے ہیں جس کے قبضہ و قدرت میں سب کچھ ہے۔ جب وہ مالک الملک کسی کو مل جائے گا تو اُس کے پاس کیا کمی رہ جائے گی۔
اگر مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنی جائیدادوں کو رکھتے اور اُس کی آمدنی سے لوگوں کو کھلاتے تو وہ ایک سال بھی ایسا نہیں کھلاسکتے تھے جو اَب ستر سال سے کھلارہے ہیں۔مرکز نظام الدین میں لنگر کھلا ہوا ہے جب عرب آتے ہیں تو اُن کے حساب سے پکتا ہے،
-----------------------------------------------------
۱؎:البقرۃ:۱۳۔ ۲؎: البقرۃ:۱۳۔