رہتا ہےتفسیرِ قرآن کےمعاملہ میں اس جرأتِ بے جانے تحریفات کا ایک فتنہ خیز دروازہ کھول دیا ہےاور کلام اللہ دور حاضر کے مغرب زدہ پروفیسرس وڈاکٹرس کا تختۂ مشق بن کررہ گیا ہے لیکن حضرت والا کے دروس میں اسلافِ امت اور اکابرِ مفسرین کی تشریحات کے ساتھ تصلب فی الدین والمذہب کا نمونہ دکھائی دے گا۔
عرصۂ دراز سے خواص وعوام کے حلقہ میں شدت سے یہ ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ حضرت والا کے جملہ خطابات ضبط تحریر لائے جاِئیں تاکہ یہ علمی و روحانی سوغات دور دورتک پہنچے اور اس کافائدہ عام ہو ،احقر بھی اس سلسلہ میں فکر مند تھا اور اس اہم کام کے لیےمسلسل سعی و کوشش میں لگا رہا لیکن یہ سعادت ہمارے لیے اس وقت میسر ہوئی جب شریعہ بورڈ آف انڈیا موتی گلی خلوت حیدرآباد میں ہمیں فتاوٰی کی ذمہ داری کے ساتھ حضرت والا کے دروس و خطبات کی تصحیح و ترتیب وغیرہ کی ذمہ داری بھی نصیبہ میں آئی۔ یوں تو دروسِ قرآن کے حلقوں سے حضرت والا کی تقریباً کئی سورتوں کی تفسیر ہوچکی ہے مگر دروس چونکہ موضوعات و مواقع کی مناسبت سے مختلف سورتوں کے ساتھ دیئے گئے ہیں، اس لیے ترتیب وار اس کام کو انجام نہیں دیا جاسکا، ویسے کئی سورتوں کی تفسیر،تصحیح وترتیب پاچکی ہے جو انشاء اللہ العزیز عنقریب منظر عام پر آئےگی ،لیکن سرِدست یہ مجموعہ تیار ہوگیا تو ہم نے بلا کسی تاخیر کے یہ مسوّدہ منظر عام پر لانے کو مناسب سمجھ کر بقیہ مراحل سے گزارا ہے جو آج زیور طبع سے آراستہ ہوکر آپ کے ہاتھ میں موجود ہے۔
اربابِِ بصیرت جانتے ہیں کہ عوام الناس کیلئے قرآن کا درس اسی نہج پر زیادہ فائدہ مند ہوتا ہےجس میں ان کی ذہنی سطح کا لحاظ ہو، فنی اصطلاحات میں ان کوالجھانے کے بجائےمغز وحاصل کوآسان الفاظ میں ان کے فہم سے قریب کر دیا جائے،بدیہی مثالوں کے ذریعہ مضامین عالیہ کو خوب روشن کیا جائے، زبان ایسی ہو جو مخاطبین کےماحول و محاورات سے ہم آہنگ ہو،سادگی و بے ساختگی کی حلاوت اس میں موجود ہو ،اندازِ بیان حکمت و موعظت سے لبریز اور درد ِدل سے آراستہ ہو۔