لَہُمْ قُلُوْبٌ لَا یَّفْقَہُوْنَ بِہَا ۱؎
اُن کے پاس دل ہیں جس سے وہ سوچتے اور سمجھتے نہیں ہیں۔
أَفَلَمْ یَسِیْرُوا فِیْ الأرْضِ فَتَکُوْنَ لَھُمْ قُلُوْبٌ یَعْقِلُوْنَ بِھَا۲؎
سو کیا یہ لوگ ملک میں چلے پھرے نہیں جس سے ان کے دل ایسے ہوجائیں کہ اس سے سمجھ نے لگیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ سوچنے کا کام دل کرتا ہے۔ دل میں ایک خواہش ہوتی ہے اور اُس کا اثر دماغ تک جاتا ہے۔ پھر دماغ پلاننگ کرتا ہے کہ یہ خواہش کیونکر پوری کی جائے ۔ پھر وہ پورا منصوبہ بناکر جوارح(اعضاء) کو دیتا ہے اور اُن سے کام لیتا ہے۔ پھر ہاتھ و پیر عمل کرتے ہیں۔
اگر کسی کا ظاہر بُرا ہے اور وہ یوں کہے کہ میرا باطن اچھا ہے۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ اگر کسی کا باطن بُرا ہے اور ظاہر اچھا ہے تو ایسا ہوسکتا ہے کیونکہ باطن ابھی نہیں بنا۔ اسی وجہ سے ظاہر کے مقبول ہونے کے لیے باطن کا بننا ضروری قرار دیا گیا۔
ایک آدمی باطن کی خرابی کے ساتھ نماز پڑھتا ہے۔ مثلاً ریاکاری کرتا ہے۔ یہ سمجھ کر نماز پڑھتا ہے کہ میں اس لیے نماز پڑھتا ہوں کہ لوگ مجھے نمازی کہیں۔ اللہ کی محبت اور بندگی میں نہیں پڑھتا۔ یہ ظاہری طور پر نمازی ہے لیکن اللہ کے پاس بے نمازی ہے۔ جیسے بے نمازی جہنم میں جائے گا تو یہ نمازی بھی جہنم میں جائے گا۔کوئی حج اس لیے کرتا ہے کہ لوگ کہیں گے کہ حاجی صاحب ہیں، مگر وہ اللہ کے پاس حاجی صاحب نہیں ہیں۔ جیسے کسی نے حج فرض ہونے کے باوجود حج نہیں کیا جیسے یہ جہنم میں جائے گا، ایسے ہی دوسرا اپنے باطن کو درست کئے بغیر حج کرنے والاشمار نہ ہوگا۔ گویا اس نے بھی حج نہیں کیا ہے۔
-----------------------------------------------------
۱؎:الاعراف:۱۷۹۔ ۲؎:الحج:۴۶۔