میرا دین اُس وقت کامل ہوگا جب میں اعمالِ ظاہری اور اعمالِ باطنی دونوں کے اعتبار سے مکمل ہوجاوں گا ورنہ اُس وقت تک میں پورا دیندار نہیں ہوسکتا۔
باطنی اعمال سے متعلق فقہ اور مسائل کا نام ''تصوف'' ہے۔ اس کی کمزوریاں عام طور پر کسی کو سمجھ میں نہیں آتیں۔ اگر سمجھ میں بھی آجائیں تو اُن کو دُور کرنے کا طریقہ معلوم نہیں ہوتا۔ اگر کسی کو دُور کرنے کا طریقہ بھی معلوم ہوگیا تو نفس کی کشاکشی کی وجہ سے علاج نہیں کرسکتا کیونکہ ظاہری اعمال کے مقابلے میں باطنی اعمال میں نفس و شیطان بہت زیادہ دخل اندازی کرتے ہیں۔ اس وجہ سے آدمی کو ظاہری اعمال سے بھی زیادہ مجاہدہ باطنی اعمال میں کرنا پڑتا ہے۔ شریعت کے ان دونوں اعمال کو کامل طریقے سے لینے کے بعد آدمی کا ایمان اور تقویٰ اعلیٰ درجے کا ہوگا۔ اس کے بغیر دنیا متقی اور پرہیزگار سمجھے گی لیکن اللہ کے نزدیک اس کے بغیر وہ متقی اور پرہیزگار نہیں ہوتا۔ اب اندازہ لگائیے کہ ہمیں جو کچھ نظر آتا ہے اُس میں کاملین کی کتنی کمی ہے۔ کامل ایمان والے بہت ہی کم ہوتے ہیں چونکہ کامل ایمان کامل اعمال سے بنتا ہے اور کامل اعمال ظاہری و باطنی تمام اعمال کے مکمل ہونے سے بنتے ہیں۔ جیسے ظاہری فقہ کے علماء ہیں ایسے ہی باطنی فقہ کے بھی علماء ہیں۔ ظاہری فقہ کے علماء کو علمائے ظاہر کہتے ہیں جبکہ باطنی فقہ کے علماء کو علماء باطن و مشائخ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ظاہر نظر آجاتا ہے اور اس کی بہت سی باتیں قرآن و حدیث میں واضح ہیں۔ اس میں بہت سے لوگ گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر کم ہی کرپاتے ہیں۔ باطن نظر نہیں آتا اس وجہ سے بہت سے لوگ گمراہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔