ہے۔ جیسے اعمالِ ظاہری فرض و واجب ہیں ایسے ہی اعمالِ باطنی بھی ہیں۔ باطن کے معنی اندرون کے ہیں۔ باطنی اعمال سے مراد دل اور نفس سے متعلق اعمال ہیں۔ اس کی تھوڑی وضاحت یہ ہے کہ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، حلال کمانا، حلال خرچ کرنا، صحیح طریقے سے شادی کرنا، اولاد کی تربیت کرنا، بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنا وغیرہ یہ سب اعمالِ ظاہری ہیں۔ صبر، شکر، تقویٰ، اخلاص، للہیت، تواضع، انکساری، توکل، رضا بالقضاء، تفویض، تسلیم، تقدیر پر راضی رہنا، عفت، شجاعت، عدل و انصاف وغیرہ اعمالِ باطنی ہیں، یہ تمام بھی ایسے ہی فرض ہیں جیسے نماز فرض ہے۔ قرآن پاک میں جتنی مرتبہ نماز کا ذکر ہے اُتنی ہی مرتبہ صبر و شکر کا بھی ذکر ہے۔
اعمالِ ظاہری میں کچھ، نہ کرنے کے بھی کام ہیں جیسے شراب نہ پینا، چوری نہ کرنا، زنا نہ کرنا، بدکاری نہ کرنا، سود نہ کھانا، رشوت نہ کھانا، کسی کا مال غصب نہ کرنا، کسی کی غیبت نہ کرنا، کسی کو گالی نہ دینا وغیرہ۔ ان کو منہیات بھی کہتے ہیں۔ ایک مسلمان کو ان تمام کاموں سے رُکنا ہے۔ اعمالِ باطنی میں بھی کچھ نہ کرنے کے کام ہیں جیسے دنیا کی محبت کا دل میں نہ ہونا، جاہ کی محبت کا دل میں نہ ہونا، مال کی محبت کا دل میں نہ ہونا، ریاکاری نہ ہونا، بے صبرا پن اور ناشکری نہ ہونا، طبیعت میں ظلم نہ ہونا وغیرہ۔ ان تمام اعمال کا بھی ایسا ہی حکم ہے جیسے چوری، زنا، بدکاری اور شراب پینے کی ممانعت ہے ایسے ہی ریاکاری کی ممانعت ہے، تکبر کی ممانعت ہے، عجب کی ممانعت ہے۔ شریعت کا ظاہری حصہ بھی بہت اہم ہے، اس کے بغیر آدمی اللہ کے قریب نہیں ہوسکتا اور شریعت کا باطنی حصہ بھی بہت اہم ہے، اس کے بغیربھی آدمی اللہ کے قریب نہیں ہوسکتا۔ اس میں ایک بات یہ ہے کہ ظاہری حصہ اللہ کےیہاں اُسی وقت قبول ہے جب باطنی حصہ صحیح ہوجائے۔ اگر باطنی حصہ صحیح نہیں ہے تو ظاہری حصے کا اعتبار نہیں