شیطان آدمی کے سامنے آکر دیکھتا ہے کہ اگر میں اس سے کہوں کہ یہ شرک کرے تو یہ شرک کرے گا یا نہیں کرے گا؟ نہیں بھئی یہ تو ماننے والا نہیں ہے۔ پھر شیطان یہ دیکھتا ہے کہ اگر میں اس سے کہوں کہ یہ گناہِ کبیرہ کرے تو یہ بندہ ماننے والا نہیں ہے۔ پھر شیطان یہ دیکھتا ہے کہ کیا میں اس کو بدعت میں مبتلا کرسکتا ہوں جو غلط ہی ہے لیکن ظاہری طور پر صحیح دکھلادیتا ہے، لیکن یہ بندہ اس میں بھی قابو میں نہیں آرہاہے۔ پھر شیطان یہ دیکھتا ہے کہ کیا میں اس بندے کو چھوٹے چھوٹے گناہوں میں لگاسکتا ہوں لیکن وہ یہ بھی نہیں کرسکتا کیونکہ یہ کسی اللہ والے کا صحبت یافتہ نظر آرہا ہے۔ پھر شیطان یہ دیکھتا ہے کہ کیا میں اس بندے سے سنن اور مستحبات چھڑواسکتا ہوں۔ مستحب چھوڑنے کے مجرم کی سزا سنت سے محرومی ہے۔ جو سنت کو چھوڑتا ہے اُس کی سزا واجبات سے محرومی ہے۔ جو واجبات میں سستی کرتا ہے اُس کی سزا فرائض سے محرومی ہے۔ جس سے سنت چھوٹتی ہے آپ دیکھیں گے کہ اُس کی تکبیرِ اولیٰ اکثر چھوٹتی ہے۔ جو مستحبات کو چھوڑتا ہے اُس سے سنت میں گڑ بڑ ہوتی ہے۔ یہ ایک ترتیب ہے۔
تمام نیکیاں آپس میں رشتہ دار ہیں اور ایک دوسرے کو کھینچا کرتی ہیں۔ تمام بُرائیاں آپس میں رشتہ دار ہیں اور ایک دوسرے کو کھینچا کرتی ہیں۔ آدمی چھوٹی بُرائی سے بڑی بُرائی تک چلا جاتا ہے اور آدمی چھوٹی نیکی سے بڑی نیکی تک پہنچ جاتا ہے۔
پھر سب سے آخری چیز جس سے بہت کم لوگ بچ پاتے ہیں اور شیطان کا کامیاب حربہ ہے کہ تکثیر مباحات یعنی جائز چیزوں کی کثرت میں مبتلا کرتا ہے۔ یہ جائز ہے، وہ جائز ہے، اچھا پہننا جائز ہے، اچھا کھانا جائز ہے، اچھا مکان بھی جائز ہے، اچھی گھڑی بھی جائز ہے، اچھی گاڑی بھی جائز ہے اور پھر اُس کی کثرت ہوتی ہے۔ دسترخوان پر دسیوں سالن رکھے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام نے یہ سب جائز کیا ہے اور یہ خدا کی نعمتیں ہیں لہٰذا خوب کھاؤ۔ جب آدمی تکثیر