ملا لیکن نورِ کفایت مل گیا اور بڑے بڑے گناہوں سے بچ جاتا ہے، یہ بھی غنیمت ہے۔ ایک وہ ہوتا ہے جس کو نہ نورِ عنایت ملا اور نہ نورِ کفایت ملا لیکن کم از کم وہ ایمان کے دائرے میں تو آگیا اُسے نورِ ہدایت مل گیا۔
نورِ ہدایت کفر سے ایمان کی طرف آجانا، نورِ کفایت بڑے بڑے گناہوں سے بچ جانا اور نورِ عنایت بُرے خیالات اور بُرے وساوس سے بچنے کی صلاحیت کا دل کے اندر پیدا ہوجانا۔ ایک مرحلے پر آدمی اللہ تعالیٰ سے تعلق پر ایسا آجاتا ہے کہ اُس کی غفلت دُور ہوجاتی ہے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ یاد رہتے ہیں اور اُس کو بُرے خیالات اور بُرے وساوس نہیں ستاتے ،بلکہ جو خیالات اور وساوس آتے ہیں وہ بھی اچھے ہوتے ہیں، اُس میں بھی بڑی بڑی نیکیاں شامل ہوا کرتی ہیں۔ اُس کو حق تعالیٰ کی مرضیات والے خیالات آتے ہیں حالانکہ اچھے سے اچھا خیال آنے سے آدمی کا مرتبہ نہیں بڑھتا اور بُرے سے بُرا خیال آنے سے آدمی کا مرتبہ نہیں گھٹتا کیونکہ خیال آدمی کے بس میں نہیں ہے۔ یہ بات میں نے اس لیے عرض کردی کہ بعض دفعہ جب بُرے خیال آتے ہیں تو آدمی سمجھتا ہے کہ میں بُرا ہوگیابعض مرتبہ آدمی کچھ رہتا نہیں اور اپنے آپ کو بڑا اور اللہ والا سمجھتا ہے اور اوپر سے تو بایزید بسطامی رہتا ہے اور اندر سے یزید ہی یزید رہتا ہے۔ اس لیے بُرے سے بُرے خیالات کا آنا آدمی کو بُرا نہیں بناتا۔ اگر ایک آدمی کو بُرا سے بُرا خیال آگیا لیکن اُس نے اس کے تقاضہ پر عمل نہیں کیا تو وہ بُرا نہیں ہوتا۔ اگر ایک آدمی کو اچھے اچھے خیالات آتے ہیں لیکن وہ اُس پر وہ عمل نہیں کرتا تو ان خیالات سے اُس کا اللہ تعالیٰ کے پاس مرتبہ نہیں بڑھتا۔ یہ اسلام کا ضابطہ ہے کہ جو چیز غیراختیاری ہوتی ہے اُس میں آدمی کا مؤاخذہ نہیں ہوتا ہے، البتہ ایمان اور اعمال کے ساتھ جو غیراختیاری حالات آتے ہیں اُس میں آدمی کا مرتبہ گھٹتا اور بڑھتا ہے۔