سفر نامہ حرمین شریفین |
ہم نوٹ : |
|
چاہیں تو قاری صاحب آپ کی قیام گاہ پر آ کر بھی پڑھا سکتے ہیں۔حضرت شیخ نے عرض کیا کہ نہیں حضرت، میں درسگاہ میںجا کر پڑھوں گا ۔چناں چہ آپ نے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر نورانی قاعدہ پڑھا، تو حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب رحمۃ ا للہ علیہ نے کئی جگہ اس واقعہ کو بیان فرمایا اور مولانا جلال الدین رومی کا یہ شعر پڑھا ؎ ایں چنیں شیخے گدائے کو بکو عشق آمد لَا اُبَالِیْ فَاتَّقُوْا اتنا بڑا شیخ آج گدا بن کر در بدر پھر رہا ہے،عشق جب آتا ہے تو اسی شان سے آتا ہے۔مجاہدات ِ شاقہ اور ان کا ثمر اپنے شیخ حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ زمانہ قیام میں حضرت والا پر مجاہداتِ اختیاری کے علاوہ مجاہداتِ اضطراری بھی آئے، جن کو سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں لیکن حضرت کے چار شعر نقل کرتا ہوں جن میں اضطراری یعنی ایذائے خلق کی طرف اشارہ ہے ؎ بتاؤں کیا کیا سبق دیے ہیں تری محبت کےغم نے مجھ کو ترا ہی ممنون ہے غمِ دل اور آہ و نالہ دل حزیں کا جفائیں سہہ کر دعائیں دینا یہی تھا مجبور دل کا شیوہ زمانہ گزرا اسی طرح سے تمہارے در پر دل حزیں کا جو تیری جانب سے خود ہی آئے پیامِ الفت دل حزیں کا تو کیوں نہ زخم جگر سے بہہ کر لہو کرے رخ تیری زمیں کا نہیں تھی مجھ کو خبر یہ اختر کہ رنگ لائے گا خوں ہمارا جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا آپ نے بڑے صبر و استقلال کے ساتھ مخلوق کی ایذاءرساینوں کو برداشت کیا اور نہ کبھی کسی سے انتقام لیا اور نہ بد دعا دی، ان ہی مجاہدات کی برکت اور اپنے شیخ کی محبت و خدمت