سفر نامہ حرمین شریفین |
ہم نوٹ : |
|
قر آ ن مجید کی تلاوت کرتے کرتے کبھی بڑی ہی وارفتگی اور بے چینی کے ساتھ فرماتے ؎ آ جا میری آنکھوں میں سما جا میرے دل میں اور کبھی والہانہ انداز میں خواجہ مجذوب رحمۃ ا للہ علیہ کا یہ شعر پڑھتے ؎ میں ہوں اور حشر تک اس در کی جبیں سائی ہے سر زاہد نہیں یہ سر سر سودائی ہےعشقِ شیخ اور خدمت و مجاہدات آپ اپنے شیخ کے ساتھ تہجد کے وقت اٹھتے، وضو کراتے اور جب شیخ عبادت میں مشغول ہو جاتے تو آپ ذرا پیچھےہٹ کر آڑ میں بیٹھے رہتے تا کہ شیخ کی عبادت میں خلل نہ پڑے، جب تک شیخ مشغول رہتے آپ بھی بیٹھے رہتے، تہجد سے دوپہر تک تقریباً سات گھنٹہ روزانہ شیخ عبادت فرماتے،دوپہر کا کھانا شیخ اور مرید مل کر تناول فرماتے ان دس برسوں میں کبھی ناشتہ نہیں کیا کیوں کہ حضرت شیخ پھولپوری رحمۃ ا للہ علیہ بوجہ پیرانہ سالی ناشتہ نہیں کرتے تھے،اس لیے حضرت نے بھی ناشتہ کو منع کر دیا کیوں کہ روزانہ ناشتہ بھجوانے میں شیخ کے اہل خانہ کو تکلیف ہوتی۔ جوانی کے وقت میں صبح سے لے کر ایک بجے تک ایک دانہ منہ میں نہیں جاتا تھا ۔حضرت فرماتے ہیں کہ میرا ناشتہ شیخ کے دیدار ، ذکر و تلا وت و اشراق سے ہوتا تھا اور اتنا نور محسوس ہوتا تھا کہ آج تک اس کے انوار قلب و روح محسوس کرتے ہیں،چاندنی راتوں میں اپنے شیخ کے ساتھ جنگل میں درختوں کے نیچے بیٹھ کر ذکر کرتے ہوئے عجیب کیف و مستی کا عالم ہوتا ؎ گزرتا ہے کبھی دل پر وہ غم جس کی کرامت سے مجھے تو یہ جہاں بے آسماں معلوم ہوتا ہے حضرت شیخ پھولپوری رحمۃاللہ علیہ کے جذبِ عشق و مستی کا عجب عالم تھا ،گھر میں نہ بیت الخلاء تھا نہ غسل خانہ ، قضائے حاجت کے لیے جنگل میں جانا ہوتا ۔ وضو اور غسل کے لیے قریب میں پانی کا ایک تالاب تھا جس میں بہت جونکیں تھیں اور سردیوں میں پانی برف کے مانند ٹھنڈا ہو جاتا تھا،جب نہاتے تو ایک منٹ کے لیے ایسا لگتا کہ بچھوؤ ں