سفر نامہ حرمین شریفین |
ہم نوٹ : |
|
کبھی رات کا قیام فرماتے تو حضرت مولانا محمد احمد صاحب رحمۃ ا للہ علیہ گھر سے اپنا بستر باہر خانقاہ میں لے آتے اور فرماتے کہ یہاں بڑے بڑے علماء آتے ہیں لیکن میں کسی کے لیے گھر سے باہر بستر نہیں لاتا صرف آپ کے لیے گھر سے باہر آ کر سوتا ہوں۔ ایک خط میں تحریر فرمایا کہ آپ کو مجھ سے جیسی محبت ہے دنیا میں مجھ سے ایسی محبت کرنے والا کوئی دوسرا نہیں ۔ بقول حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ حضرت مولانا محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی قدس سرہ سلسلہ نقشبندیہ کے سب سے قوی النسبت بزرگ تھے اور مقام قطبیت پر فائز تھے اور نہایت درد سے اشعار پڑھتے تھے۔آپ کے یہاں نسبت اشعار سے منتقل ہوتی تھی حضرت والا کا ذوقِ شعری حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت کا تربیت یافتہ ہے اسی دوران حضرت شیخ کی زندگی کا پہلا شعر ہوا جو آپ کی آتش ِ غم نہانی کی ترجمانی کرتا ہے ؎ دردِ فرقت سے مرا دل اس قدر بے تاب ہے جیسے تپتی ریت میں اِک ماہی بے آب ہےبیعت و ارادت پھر حضرت شیخ کو علم ہوا کہ پھولپور میں حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمۃ ا للہ علیہ کے اجل خلیفہ حضرت مولانا شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ ا للہ علیہ مقیم ہیں۔ایک دوست نے حضرت شاہ عبد الغنی رحمۃ ا للہ علیہ کے بارے میں چشم دید کیفیات ِ درد ِ محبت و عشق و دیوانگی کا حال بیان کیا تو حضرت شیخ کو ان کی طرف دل میں بہت کشش محسوس ہوئی اور بہت زیادہ مناسبت معلوم ہونے لگی اور شاہ عبد الغنی پھولپوری رحمۃ ا للہ علیہ کو اپنا مرشد و مصلح منتخب کرنے کافیصلہ کیا حضرت شیخ نے حضرت شاہ عبد الغنی رحمۃ ا للہ علیہ کو جب پہلا خط لکھا تو اس میں یہ شعر تحریر کیا ؎ جان و دل اے شاہ قربانت کنم دل ہدف را تیر مثرگانت کنم ترجمہ : اے شاہ میں جان و دل آپ پر قربان کرتا ہوں ۔