سفر نامہ حرمین شریفین |
ہم نوٹ : |
|
ملک عبدالوحید صاحب کے باغ میں ناشتہ یکم شعبان ۱۴۲۰ھ بمطابق ۹ نومبر ۱۹۹۹ء بروز منگل بعد نمازفجر فجر کے بعد ملک عبدالوحید صاحب برادرِخورد مولانا عبدالحفیظ مکی صاحب دامت برکاتہم کی درخواست پر حضرتِ والا ان کے کھجوروں کے باغ میں مع احباب تشریف لے گئے،ان کا باغ مدینہ شہرسے چند کلومیٹر کے فاصلے پرتھا،وہاں کھجو ر کی ٹہنیوںکےسائبان کے نیچے بیٹھنے کاانتظام تھا۔چاروں طرف کھجوروں کے درخت، بھیڑ، بکریوں ،مرغ اور کبوتروں کی آوازیں اورحضرت شیخ کی پررونق مجلس عجیب سماں پیدا کررہی تھی اور اس ماحول میں عرب دیہاتی ناشتہ انسان کوتصورات میں کئی سو سال پہلے لے جاتاتھا پھرحضرتِ والا کے پرنورارشادات حرم پاک کی فضاؤں میں قلب و جاں کو بالیدگی اور روح کو تروتازگی عطاکررہے تھے ۔ارادۂ دل سے اﷲ اﷲ کہنا ارشاد فرمایا کہ ایک شخص نے حکیم الامّت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو لکھاکہ ایسا وظیفہ بتادیں کہ خود بخود اﷲ اﷲ نکلتا رہے تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب میں فرمایا کہ توبہ کرو اس بات سے ایک اﷲ جو اپنے ارادہ سے نکلے ایک کروڑ بلاارادہ اﷲ اﷲسے افضل ہے،اس لیے حضرت مولانا حاجی امداداﷲ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ عارف کی دورکعت غیرعارف کی ایک لاکھ رکعات سے افضل ہے ۔اﷲ تعالیٰ کی زیارت ارشاد فرمایا کہ جنّت میں اہل جنت اﷲ تعالیٰ کی زیارت کریں گے توانہیں جنت کی نعمتوں کاایک لمحہ بھی خیال نہیں آئے گا۔ اﷲ تعالیٰ کے دیدار کی لذّت کے سامنے ساری نعمتیں بے وقعت ہوجائیں گی۔اس پرحضرت نے یہ اشعار سنائے ؎ صحنِ چمن کو اپنی بہاروں پہ ناز تھا وہ آگئے تو ساری بہاروں پہ چھاگئے