سفر نامہ حرمین شریفین |
ہم نوٹ : |
کرتے،ایک بار والد صاحب کے دوستوں میں سے کسی نے دیکھ لیا اور ان کو اطلاع کر دی اگلے دن جب حضرتِ والا فجر کے قریب مسجد سے باہر آئے تو والد صاحب مسجد کے باہر کھڑے ہوئے تھے اور فرمایا کہ تم میرے اکلوتے بیٹے ہو یہاں جنگل میں چور ڈاکو بھی ہوتے ہیں، دشمن بھی ہوتے ہیں لہٰذا اتنی رات میں یہاں اکیلے مت آیا کرو ، گھر میں ہی تہجد پڑھ لیا کرو۔ والد صاحب کے حکم کی تعمیل میں حضرت والا پھر گھر پر ہی تہجد پڑھنے لگے۔ان حالات کو دیکھ کر والد صاحب آپ کا نام لینے کے بجائے مولوی صاحب کہنے لگے اور ان کے دوست بھی آپ کو دُرویش اور فقیر کہتے تھے واقعی کسی نے سچ کہا ہے ؎ زباں خلق کو نقارۂ خدا سمجھومثنوی مولانا رومیسے استفادہ اسی دور نابالغی میں مولانا جلال الدین رومی رحمۃ ا للہ علیہ کی مثنوی شریف سے والہانہ شغف ہو گیا تھا، حضرت والا کے قرآن پاک کے استاد بڑی ہی درد ناک آواز میں مثنوی شریف پڑھتے تھے۔قرآن پاک پڑھنے کے بعد حضرت والا ان سے درخواست کرتے تھے کہ مثنوی شریف سنائیں تو وہ نہایت درد بھری آواز میں مثنوی شریف پڑھ کر حضرت کے قلب کو تڑپا دیتے تھے،اسی وقت سے حضرت مولانا رومی رحمۃ ا للہ علیہ سے حضرت والا کو بے پناہ محبت ہو گئی تھی اور مثنوی شریف سمجھنے کے شوق میں فارسی تعلیم شروع کر دی تھی۔حضرت والا اکثر فرماتے ہیں کہ میرے شیخ اوّل تو مولانا رومی رحمۃ ا للہ علیہ ہیں جن سے میرے قلب ِ مضطر کو بہت تسکین ملی اور اللہ تعالیٰ کی محبت کا درد اوّلاً مولانا رومی رحمۃ ا للہ علیہ سے ہی حاصل ہوا اسی زمانے میں مثنوی شریف کے اشعار پڑھ پڑھ کر رویا کرتے تھے ، خصوصاً یہ اشعار ؎ سینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق تا بگویم شرح از درد اِشتیاق اے خدا! تیری جدائی کے غم میں ، میں اپنا سینہ پارہ پارہ چاہتا ہوں تاکہ تیری محبت کی شرح درد ِ اشتیاق سے بیان کروں ؎