سفر نامہ حرمین شریفین |
ہم نوٹ : |
|
عطاردسیّارہ (قلبِ ربّانی کی مثال) ارشاد فرمایا کہسائنس دان کہتے ہیں کہ عطارد سیارہ سورج کے بالکل قریب ہے، اس سے زیادہ کوئی سیارہ قریب نہیں، توسورج کی روشنی کی وجہ سے چم چم چمکتاہے اوراس پر اﷲ تعالیٰ نے ایک چاند بھی نہیں دیا، جب ایک مخلوق آفتا ب کے قریب رہنے والا سیارہ چاندوں سے مستغنی کردیا گیا تواﷲ تعالیٰ کے خاص بندے جو اپنے دل میں خالق خورشید، خالقِ آفتاب اورخالقِ شمس وقمر رکھتے ہیںتوان کے دل پر اﷲ تعالیٰ کے نور کی تجلی انہیں دنیاکے چاندوں سے مستغنی کردیتی ہے یہی علامت ہے صاحبِ نسبت کی اوریہی علامت ہے ولایت کی۔یہی علامت ہے اﷲ تعالیٰ کے ولی اوردوست کی۔ جب تک قلب غیراﷲ سے مستغنی نہ ہو اوردنیاکے چاندوں سے مستغنی نہ ہوسمجھ لو کہ اﷲ تعالیٰ کی تجلی اس دل کو حاصل نہیں ہے ۔مومن کے آسمانِ دل کاآفتاب ارشاد فرمایا کہ بس اپنے دل کاخون کرناسیکھ لو، جب مشرق لال ہوتا ہے تودنیا کوسورج ملتا ہے یہ سورج ہمارا سورج نہیں ہے کیوں کہ اس سے کافربھی فائدہ اٹھاتا ہے اﷲ والوں کا او ر عاشقوں کاسورج وہ ہے جو کافروں کوعطا نہیں ہوتا وہ ہے اﷲتعالیٰ کے نورکاسورج ۔مشرق کاافق جب لال ہوتا ہے تودنیا کو ایک سورج ملتا ہے لیکن اﷲ والوں کے دل کے چاروں افق جب خونِ آرزو سے لال ہوجاتے ہیں تو ان کے قلب میں ہر طرف سے بے شمار آفتاب طلوع ہوتے ہیں اﷲ والے اپنے دل میں بے شمار آفتاب رکھتے ہیں ۔ میرا شعر ہے ؎ وہ سرخیاں کہ خونِ تمنا کہیں جسے بنتی شفق ہیں مطلعِ خورشیدِ قرب کی اور ؎