سفر نامہ حرمین شریفین |
ہم نوٹ : |
|
فرمایا:اپنے کمبل کا نقاب بنالو جوکوہ طور پرآپ کے جسم پرتھا، کیوں کہ اس نے طورکی تجلی کاتحمل کیاہواہے اس کمبل کے ٹکڑے نے وہ کام کیا جو آہنی دیواریں بھی نہ کرسکتی تھیں۔ اب حضرت صفورہ علیہا السلام جوآپ کی اہلیہمحترمہ تھیںاورآپ کے حسن کی عاشقہ تھیں، اس نقاب سے بے چین ہوگئیں، توآپ نے اسی شوق اوربے تابی سے ایک آنکھ سے موسیٰ علیہ السلام کے چہرہ کو دیکھا تو وہ آنکھ چلی گئی اس کے بعد بھی ان کوصبر نہ آیا تودوسری آنکھ بھی کھول دی تووہ بھی بے نور ہوگئی۔ اس وقت ایک عورت نے حضرت صفورہ سے پوچھا کہ کیاتمہیں اپنی آنکھوں کے بے نور ہونے پر حسرت اورغم ہے ؎ گفت حسرت میخورم کہ صد ہزار دیدہ بودے تا ہمی کر دم نثار فرمایاکہ مجھے توحسرت ہے کہ ایسی سوہزار آنکھیں اوربھی عطاہوجائیں، تومیں ان سب کو محبوب پر قربان کردیتی۔ حق تعالیٰ کو حضرت صفورہ کایہ کلام بہت پسند آیا اور خزانۂ غیب سے دونوں آنکھوں کو ایسانور عطاکردیا،جس سے وہ ہمیشہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کودیکھاکرتی تھیں اوران میں ایساتحمل پیدا کر دیاکہ پھرکبھی نورِخاص سے ضایع نہ ہوئیں ۔تحدیث بالنعمت ارشاد فرمایاکہمیں ایسی مقدس سرزمین پرمثنوی شریف کادرس دے رہاہوں جہاں میرے پرداداحضر ت حاجی امداداﷲ مہاجرمکی رحمۃ اللہ علیہ نے درس دیا تھا اوراسی سرزمین پر چھ ماہ میرے داداپیر حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت حاجی صاحب سے مثنوی شریف پڑھی تھی اورپھر حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے میرے پیر حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھولپور ی رحمۃ اللہ علیہ نے پڑھی پھران سے بندہ نے پڑھی،یہی فیض ہے کہ میں نے اس کی شرح لکھی۔