سفر نامہ حرمین شریفین |
ہم نوٹ : |
|
کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوئے ہیں۔گزشتہ حج پر جنوبی افریقہ کے ایک عالم جوہجرت کر کے مدینہ شریف آئے ہوئے ہیں، وہ منیٰ میں خصوصیت سے ملنے کے لیے تشریف لائے، انہیں’’سفرنامہ رنگون وڈھاکہ‘‘ ملاتھا، انہوں نے بتایا کہ مجھے اس کتاب سے بے حد نفع ہوا،اس کے مطالعے نے میرے کتنے اشکالات کوحل کیا اورگتھیلوں کوسلجھایا،اب میں اسے ہروقت اپنے سرہانے رکھتا ہوں۔ اسی طرح کی بیسیوں دوستوں سے نفع اور فیض کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔ ۱۹۹۹ء میں حضرت والا کے ساتھ حرمین شریفین کاسفرہوا،یہ حضرت والا کا حالتِ صحت میں آخری سفرتھا،یہ سفربھی بڑا عجیب وغریب تھا، حرمین شریفین کے پر انوار وبابرکات ماحول میں حضرت والاکے فیض وصحبت سے بہت نفع ہوا۔ اس سفر سے واپسی کے بعد ہی سے سفرنامہ کومرتب کرنے کاخیال دامن گیر تھا،لیکن اپنی کاہلی وسستی اورعدم فرصتی آڑے آتی رہی۔ گزشتہ سال حج سے واپسی پر جب خانقاہ کراچی حاضر ہوا توحضرت میرصاحب دامت برکاتہم نے فرمایا کہ میں نے کئی بار حضرت والا کاحرمین شریفین کاسفرنامہ۱۹۹۹ ء مرتب کرنے کی کوشش کی، لیکن نہیں ہوسکا، میرے دل میں آیاکہ یہ سعادت آپ کے حصے میں ہے اورمیرے پاس جو کیسٹوں میں مواد ہے وہ آپ لے جائیں اوراسے مرتب کریں۔ اس بات نے میرے جذبے کو مہمیز کردیا اورواپس آکر اس پر کام شروع کردیا، کیسٹوں سے مضامین کاغذ پر اتروائے گئے اوراصل مدار اس ڈائری کوبنایاگیا جواحقرنے اس سفرمیں لمحہ بہ لمحہ لکھی تھی۔ الحمد ﷲ! سفرنامہ مرتب ہوکر آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ حضرت میرصاحب دامت برکاتہم کی نظرسے گزر کر تکمیل کوپہنچا ہے۔حضرت میرصاحب کے کلمات تہنیت وتبریک اس کے شروع میں آویزاں ہیں۔ احقر اس سفرنامہ کی ترتیب وتالیف کے سلسلہ میں خاص طور پرمخدومی ومکرمی