جائے گا۔ غرض حضرت مسیح علیہ السلام اپنی قوت بازو سے تمام مخالفین کا خاتمہ فرمادیں گے۔ مرزاغلام احمد آئے۔ ان کی ساری عمر رسمی مناظرات اور پیشہ وارانہ مباحثات میں گذری۔ آپ کی زندگی میں آپ کے سامنے عیسائیت کو فروغ ہوا۔ سماجی خیالات سے مسلمانوں کا ایک طبقہ متأثر ہو۱۔ ارتداد کے پے درپے حملے ہوئے۔ آنجہانی اور آپ کی جماعت نے یہ سب حوادثات دیکھے۔ حالانکہ حسب ارشاد سرور عالمﷺ سچے مسیح کی زندگی میں اسلام کے سوا تمام مذاہب کو ختم ہو جانا چاہئے تھا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ کفر اتنا ذلیل ہو جائے کہ اس کے لئے مزید ذلت کی ضرورت نہ رہے۔ بلکہ مسلمان اپنے مراحم خسروانہ سے انہیں جزیہ سے سبکدوش کردیں۔ ان دونوں صورتوں کے لئے ضروری ہے کہ پہلے جنگ ہو۔ تصادم کے بعد دشمن کی طاقت ختم ہو جائے۔ مرزاقادیانی نے نہ جنگ کی اور نہ ان کے دلائل اور قلم دوات کی جنگ سے یہ صورت پیدا ہوسکی۔ جن کا تذکرہ سرور عالمﷺ نے فرمایا ہے۔ پہلی قسم کی جنگ تو شاید آنجہانی کے نزدیک ناجائز تھی۔ لیکن ان کی خود ساختہ جنگ بھی نتائج کے لحاظ سے بیکار ثابت ہوئی۔ اس سے ظاہر ہے کہ جس مسیح کا ذکر احادیث میں آیا ہے وہ ابھی تک نہیں آئے۔ وہ یقینا کوئی جنگی مسیح ہے۔ جن کے حملوں کی تاب خود جنگ بھی نہیں لاسکتی۔ ارشاد ہے۔ ’’تضع الحرب اوزارہا‘‘ جنگ اس کے سامنے ہتھیار ڈال دے گی۔ واقعات شاہد ہیں کہ چاپلوسی اور متملق مسیح کے لئے احادیث میں کوئی مقام نہیں۔
۲… دوسرا نشان مال کی کثرت کے متعلق ہے۔ اسے کوئی قبول نہیں کرے گا۔ حدیث میں ’’حتیٰ لا یقبلہ احد‘‘ پر زور دیاگیا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی کے آنے پر مال کی طلب ختم ہوگئی۔ روح اتقاء نے لوگوں کو مال سے متنفر کر دیا۔ واقعہ یہ ہے کہ خود مرزاقادیانی کا خاندان چندوں کے لئے مختلف حیلے تراش رہا ہے۔ مسیح قادیانی نے خود لنگر کا چندہ، براہین احمدیہ کا چندہ، بہشتی مقبرہ کا چندہ، تبلیغ کا چندہ۔ غرض تحصیل مال کے لئے کس قدر باطل راہیں تھیں۔ جھوٹے حیلے تھے۔ جو اختیار کئے معلوم ہوتا ہے۔ اصل مسیح تاحال تشریف نہیں لائے۔ بھیس بدل کر کچھ ارباب ہوس ان کی جگہ لینے کی کوشش کر کے چل بسے۔ دولت مند مسیح کا انتظار ہنوز باقی ہے۔ جو دنیا کو مال سے بے نیاز کر دے گا۔
۳… تیسرا نشان یہ ہے کہ مسیح کے وقت لوگ عبادت کو دنیا کے مال پر ترجیح دیں گے۔ یہ