کنیہ ابی غنی میں ایک بڑا مشہور پادری تھا۔ جس کو متبرک سمجھ کر لوگ اپنے مریضوں پر دعا پڑھانے کے لئے اس کے پاس لاتے تھے اور میں دیکھتا تھا کہ وہ پانچ نمازیں نہایت خشوع وخضوع سے پڑھتا تھا۔ میں نے اس سے دریافت کیا کہ:
’’اخبرنی ہل بقی احد من الانبیاء قال نعم وہو اٰخر الانبیاء قد امرنا عیسیٰ باتباعہ وہو نبی الامی العربی اسمہ احمد۰ لیس بالطویل والابالقصیر فی عینیہ حمرۃ (الحدیث، رواہ ابونعیم فی الدلائل ص۲۰، ۲۱)‘‘ {مجھے بتاؤ کہ کیا انبیاء میں سے کوئی نبی باقی ہیں۔ اس نے کہا ہاں! اور وہی آخر الانبیاء ہیں… حضرت عیسیٰ نے ہمیں ان کے اتباع کا حکم فرمایا ہے۔ وہ نبی امی عربی ہیں۔ ان کا نام احمد ہے۔ نہ درازقد ہیں نہ پست قد۔ (بلکہ درمیانہ) ان کی آنکھوں میں سرخی ہے (اس کے بعد اور بہت سے اوصاف بیان کئے)}
حضرت مغیرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اس کلام کو خصوصاً اور دوسرے پادریوں کے کلمات عموماً یاد رکھے اور پھر آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر تمام واقعہ سنایا اور مشرف بہ اسلام ہوگیا۔
۴… امام شبعیؓ فرماتے ہیں کہ صحیفہ ابراہیم میں لکھا ہے: ’’انہ کائن من ولدک شعوب وشعوب حتیٰ یاتی النبی الامی الذی یکون خاتم الانبیاء (خصائص کبریٰ للسیوطی ص۹ ج۱)‘‘ {آپ کی اولاد میں قبائل درقبائل ہوتے رہیں گے۔ یہاں تک کہ نبی امی آجائیں جو خاتم الانبیاء ہوں گے۔}
۵… اور امام بیہقی بروایت عمر وابن الحکم نقل فرماتے ہیں کہ میرے آباؤاجداد سے ایک ورق محفوظ چلا آتا تھا جو جاہلیت میں نسلاً بعد نسل وراثت میں منتقل ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ دین اسلام ظاہر ہوا۔ پھر جب نبی کریمﷺ مدینہ منورہ تشریف فرما ہوئے تو لوگ یہ وقت آپ کی خدمت میں لے آئے۔ پڑھوایا گیا تو اس میں یہ عبارت لکھی تھی۔
’’بسم اﷲ وقولہ الحق ہذا الذکر لامۃ تاتی فی آخرالزمان یخومنون البحار الیٰ اعدائہم فیہ الصلوٰۃ (خصائص کبریٰ ج۱ ص۱۶)‘‘ {اﷲ کے نام پر شروع ہے اور اسی کا قول حق ہے۔ یہ ذکر اس امت کا ہے جو آخر زمانہ میں آئے گی وہ دشمنوں کے مقابلے کے لئے دریاؤں میں گھس پڑیں گے اور ان میں نماز ہوگی۔}