۱… ’’قال موسیٰ یارب انی اجد فی الالواح امۃہم الاٰخرین فی الخلق السابقون فی دخول الجنۃ رب اجعلہم امتی قال تلک امۃ محمدﷺ (تفسیر ابن جریر طبری ودلائل النبوۃ محدث ابونعیم ص۱۴)‘‘ {حضرت موسیٰ علیہ اسللام نے عرض کیا کہ اے میرے رب میں الواح تورات میں ایک ایسی امت دیکھتا ہوں جو پیدائش میں سب سے آخری ہے اور دخول جنت میں سب سے مقدم۔ اے میرے رب ان کو میری امت بنادے۔ اﷲتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ تو محمدﷺ کی امت ہے۔}
۲… حضرت کعبؓ احبار فرماتے ہیں کہ میرے والد تورات اور اس کلام پاک کے سب سے زیادہ عالم تھے۔ جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا اور جو کچھ جانتے تھے مجھ سے کچھ نہ چھپاتے تھے۔ جب ان کی وفات قریب آئی تو مجھے بلایا اور کہا: ’’بیٹا تم جانتے ہو کہ جو کچھ علم مجھے حاصل تھا میں نے تم سے کچھ نہیں چھپایا۔ مگر دو ورق ابھی تک میں نے تم پر ظاہر نہیں کئے تھے۔ جن میں ایک نبی کا ذکر ہے جن کی بعثت کا زمانہ قریب آگیا ہے۔ میں نے مناسب نہ سمجھا کہ تمہیں پہلے سے اس پر مطلع کر دوں۔ کیونکہ خطرہ تھا کہ کوئی کذاب اٹھے اور تم اس کو نبی موعود سمجھ کر اطاعت شروع کر دو اور ان دونوں ورقوں کو میں نے اس طاق میں جسے تم دیکھ رہے ہو گارے سے بند کر دیا۔ کعب احبارؓ نے (اس کا ایک طویل دلچسپ قصہ لکھنے کے بعد) فرمایا کہ میں نے یہ دو ورق اس طاق سے نکالے تو ان میں یہ کلمات بھی لکھے تھے۔‘‘
’’محمد رسول اﷲ خاتم النبیین لا نبی بعدہ (رواہ ابونعیم درمنثور ص۱۲۳، ج۳)‘‘ {محمد(ﷺ) اﷲ تعالیٰ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے ختم کرنے والے ہیں۔ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔}
۳… حضرت مغیرہؓ بن شعبہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور ابن مالک شاہ روم (عیسائی) مقوقس کے یہاں پہنچے… اس نے دین محمدی کے متعلق پوچھا۔ ہم نے کہا کہ ہم میں سے کسی نے بھی ان کی دعوت قبول نہیں کی… اگر تمام انسان بھی ان کے دین میں داخل ہو جائیں تب بھی ہم داخل نہ ہوں گے۔ یہ سن کر مقوقس نے نفرت سے سر ہلا کر کہا تم لہوولعب میں ہو… اور وہ (نبی کریم) اور حضرت مسیح علیہ السلام تمام انبیاء سابقین علیہم السلام کی طرح ہیں…
حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ ہم ان کے پاس سے (متاثر ہوکر) اٹھے… اس کے بعد میں اسکندریہ میں مقیم رہا اور کوئی کلیسا (گرجا) نہیں چھوڑا۔ جس میں جاکر میں نے وہاں کے قبطی اور رومی پادریوں سے دریافت نہ کیا ہو کہ تم محمدﷺ کی کیا کیا صفات اپنی کتابوں میں پاتے ہو۔