فیصلہ کرچکی تھی اس لئے کہ ان کا جرم انگریز کے نزدیک بڑا سنگین تھا۔ حضرت شیخ الاسلام مولانا مدنی مرحوم نے سفرنامہ اسیر مالٹا کے عنوان سے کچھ لکھا ہے۔ جس سے کچھ ارشادات ملتے ہیں۔ حضرت کی سکیم یہ تھی کہ انگریز کو نکالاجائے۔ فوج افغانستان کی ہو، جرنیل ترک ہوں۔ وہ باہر سے حملہ کریں اور اندر سے بغاوت کردی جائے۔ امروٹ شریف (سندھ) دین پور شریف (رحیم یار خان) کھڈہ کراچی، رائے پور شریف وغیرہ بغاوت کے خفیہ مراکز تھے۔ لیکن اﷲ کو ابھی منظور نہ تھا۔ راز افشاء ہوگیا۔ سکیم فیل ہوگئی۔ اسی سکیم کے تحت حضرت شیخ نے امام انقلاب مولانا عبید اﷲ سندھی مرحوم کو بیرون ملک بھیجا۔ انگریز کو اس کا پتہ چل گیا ادھر کسی نام نہاد بغدادی مسلمان نے افغانستان اور انگریز کی صلح کرادی۔ نتیجتاً مولانا سندھی افغانستان سے نکالے گئے۔ ان کو کہیں جگہ نہ ملی۔ پھرتے پھراتے حجاز تشریف لے گئے۔ ادھر حضرت شیخ الہند انتقال کرگئے۔ مولانا سندھی کو بڑی دیر بعد انڈیا آنے کی اجازت ملی۔
تو عرض یہ کررہا تھا کہ حضرت کی سکیم انتہائی سخت تھی۔ اس بناء پر سزائے موت کا فیصلہ ہوا۔ مالٹا میں پانچ ساتھیوں کو علیحدہ علیحدہ کال کوٹھڑیوں میں رکھا گیا۔ (یعنی حضرت شیخ الہند، حضرت شیخ الاسلام مولانا مدنی، حضرت مولانا حکیم نصرت حسین، حضرت مولانا وحید احمد مدنیؒ اور حضرت مولانا عزیر گل صاحب مقیم سخاکوٹ ضلع مردان زید مجدہم ۱۲؍مرتب) ادھر انڈیا میں اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہوئی۔ انگریز کے خلاف نفرت بڑھی تو مصلحتاً سزائے موت کو منسوخ کردیا گیا۔ حضرات کو کوٹھڑیوں سے نکال کر ایک میدان میں جمع کیا گیا۔ جس کے اردگرد خاردار تاروں کی باڑ تھی۔ خدام نے حضرت شیخ کی نقاہت وکمزوری کو دیکھا تو بھانپ گئے کہ اتنے دن آپ نے کچھ کھایا پیا نہیں پوچھنے پر آپ نے تصدیق فرمائی پھر جب سوال ہوا کہ کیوں؟ تو آپ نے فرمایا بھائی غم اس بات کا تھا کہ مجرم تو میں تھا تم بلاوجہ مفت میں ساتھ لائے گئے۔ دوسرا یہ کہ میں تو بوڑھا ہوچکا ہوں۔ عمر طبعی پوری ہوچکی تم جوان ہو میری وجہ سے بیوی بچوں سے علیحدہ کئے گئے ہو تم نے ابھی زندگی کی بہاریں بھی نہیں دیکھیں۔ یہ سن کر مولانا عزیز گل نے عرض کیا۔ حضرت آپ بھی عجیب آدمی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جان جارہی تھی۔ تو غم کیسا؟ حضرت نے فرمایا کیا کہتے ہو؟ اﷲ کی راہ میں جان، جان دینے والا دے دے اور مالک کہے کہ مجھے منظور نہیں تو پھر؟ مقصد یہ ہے کہ تکبر وغرور نہیں ہونا چاہئے۔ کوئی کام ہوجائے تو اس کی عنایت سمجھ کر اس کا شکر بجالانا چاہئے۔ اس لئے کہ ؎