تبدیلیوں سے عہدہ برآ ہوسکتی ہے تو اس کا جواب آیت کے آخری حصے میں معجزانہ طور پر مختلف الفاظ میں یوں دیا گیا: ’’وکان اﷲ بکل شیٔ علیما‘‘ {اور اﷲ سب چیزوں کا جاننے والا ہے۔} اجرائے نبوت اور ختم نبوت کی مصلحت کو خوب جانتا ہے۔ ختم نبوت کا فیصلہ دنیا کے نئے مسائل سے بے خبری میں نہیں کیاگیا۔ بلکہ یہ علم ازلی وابدی کے مالک علیم کا فیصلہ ہے۔ ’’وما ارسلنک الاکافۃ للناس‘‘ کے بعد اجرائے نبوت کا کیا فائدہ۔ جیسے اﷲ تعالیٰ رب الناس کے بعد دوسرا رب نہیں۔ ’’مبعوث الیٰ کافۃ للناس‘‘ کے بعد دوسرا نبی نہیں۔ ’’قرآن ہدی الناس‘‘ کے بعد کوئی دوسری آسمانی کتاب نہیں۔
’’ان اول بیت وضع للناس‘‘ کے علاوہ کوئی دوسرا کعبہ وقبلہ نہیں۔ ’’خیر امۃ اخرجت للناس‘‘ کے بعد کوئی دوسری امت مسلمہ نہیں۔
اور اسی کی وضاحت ارشاد نبوی میں ’’لا نبی بعدی ولا امۃ بعدکم‘‘ میں فرمائی گئی۔ دین اسلام کی یہی جامعیت اس کے دین فطرت ہونے کی دلیل ہے۔
وحی الٰہی کے مراد کو صاحب وحی ہی اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے ’’انا خاتم النّبیین/ انا خاتم الانبیاء لا نبی بعدی‘‘ {میں خاتم النّبیین ہوں، خاتم الانبیاء ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔} خاتم النّبیین قرآن حکیم کا لفظ ہے۔ لا نبی بعدی اس کا مطلب۔ اب اگر کوئی لفظ خاتم النّبیین پر ایمان رکھتا ہو اور لا نبی بعدی کا قائل نہ ہو تو اس کے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں۔ بالکل ویسے کہ جیسے جو اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت کاا قرار کرے۔ اس کا رب اور الٰہ ہونا مانے اور اس کے باوجود اس کی صفات مخصوصہ علم وقدرت اور تصرفات دوسروں کے لئے بھی تسلیم کرے۔ اس کا دعویٰ ایمان بھی باطل ہے۔
’’لا الہ الا اﷲ وحدہ‘‘ تب معتبر ہوگا کہ ’’لاشریک لہ‘‘ پر بھی ایمان ہو اور ’’انا خاتم النّبیین‘‘ تب قابل اعتبار ہوگاکہ ’’لا نبی بعدی‘‘ پر بھی ایمان ہو۔
مسلمانوں کے اتحاد کامرکزی نقطہ اﷲ تعالیٰ کی توحید اور حضور اقدسﷺ کی ختم نبوت ہے۔ جیسا کہ شاعر مشرق نے حرف اقبال میں ایک جگہ کہا۔ ’’اسلامی وحدت ختم نبوت ہی سے استوار ہوتی ہے۔‘‘ (حرف اقبال)
ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت
وحدت ہو فنا جس سے الہام بھی الہاد
(اقبالؒ ضرب کلیم)
فقط: ناچیز فضل حق، خطیب جامع مسجد ہشت نگری بازار، پشاور شہر