بھوک ہڑتال کے سلسلے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں علماء نے بھی شرکت کی۔ ہڑتال کی صورت یہ تھی کہ پہلے روز ۲۴؍گھنٹے کی بھوک ہڑتال ہوئی۔ تیسرے روز ۴۸؍گھنٹے کی بھوک ہڑتال شروع ہوئی۔ ۴؍اگست تک پہنچتے پہنچتے ۷۲؍گھنٹے کی بھوک ہڑتال شروع ہوچکی تھی اور پروگرام یہ تھا کہ اسی طرح بھوک ہڑتال کا عرصہ بڑھایا جاتا رہے گا۔ علماء نے اس بھوک ہڑتال میں شرکت کا جواز پشتونوں کی اس روایت سے نکالا کہ جب دوست قبائل یا خاندانوں کا آپس میں کوئی تنازعہ ہوجاتا ہے تو وہ اپنے اپنے وفد لے کر دوسرے گائوں یا گھر پہنچ جاتے ہیں۔ دھرنا دے کر بیٹھ جاتے ہیں اور اس وقت تک کوئی تواضع قبول نہیں کرتے۔ جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کرلئے جاتے یا معاملہ خوشدلی سے طے نہیں ہوجاتا۔
اس روایت کو پشتو میں ’’نحورہ‘‘ کہتے ہیں۔ ’’نحورہ‘‘ کے دوران میں ہفتہ ہفتہ بھر پانی یا تمباکو تو پیا جاتا ہے لیکن کچھ کھایا نہیں جاتا اور بعض صورتوں میں چائے یا لسی پی لی جاتی ہے۔ لیکن کھانا یا ماکولات کی کسی دوسری نوعیت کی تواضع قبول نہیں کی جاتی۔ علماء نے اس بھوک ہڑتال کو جدید سیاسی ’’نحورہ‘‘ قرار دے کر اس میں شرکت کی۔ سترہ اگست کو جس دن مولانا شمس الدین کو رہا کیا گیا۔ اسی روز بھوک ہڑتال میں جامع مسجد کے خطیب مولانا میرک شاہ، مولانا محمد اسحق خوشی اور دوسرے جید علماء نے شریک ہونا تھا۔
اور پھر جیت ہوگئی
سترہ اگست کو رات گیارہ بجے ڈپٹی سپیکر مولانا شمس الدین سنڈیمن پہنچے۔ انہیں شہر سے سولہ میل دور جلوس کی صورت میں لایا گیا تھا۔ آدھی رات کو شہر میں میلے کا سماں تھا۔ شہر میں جلوس کا گشت ظریف پارک پر ختم ہوا۔ جہاں ۷۲؍گھنٹے کے ۱۴؍ہڑتالی بیٹھے تھے۔ اگلے روز صبح مجلس عمل کے کھلے اجلاس میں یہ طے کیا گیا کہ بھوک ہڑتال ختم کی جائے۔ کیونکہ ایک بڑا مطالبہ ختم نبوت کے آخری قیدی مولانا شمس الدین کی رہائی مان لیا گیا ہے اور دوسرا بڑا مطالبہ مرزائیوں کو اقلیت قرار دینا پورے ملک سے تعلق رکھتا ہے۔ جس کے لئے ملک گیر تحریک کی ضرورت ہے۔ تیسرے مطالبے مقدمات کی واپسی کے بارے میں فیصلہ ہوا کہ اگر مقدمات چلانے کی کوشش کی گئی تو اس دھاندلی کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
اٹھارہ اگست کی صبح کو بھوک ہڑتال ایک تقریب کے ساتھ ختم ہوئی۔ بھوک ہڑتالیوں کو پھولوں سے لادا گیا۔ جامع مسجد میں جلسہ عام ہوا، جس میں مولانا شمس الدین نے اپنے سرکاری