جائیں۔ چنانچہ ڈپٹی سپیکر مولانا شمس الدین اور ان نو حضرات سمیت پینتیس افراد تھانے پہنچ گئے اور سب نے اپنے آپ کو گرفتاری کے لئے پیش کردیا۔
پولیس حکام نے کچھ پس وپیش کے بعد ان سب پینتیس کے پینتیس حضرات کو حوالات میں بند کردیا۔ ڈپٹی سپیکر مولانا شمس الدین کی گرفتاری ملک بھرمیں محسوس کیا جانے والا معاملہ تھا جس پر پولیس حکام اور ضلعی انتظامیہ بالائی سطح پر رابطہ قائم کرنے پر مجبور تھی۔ وہاں سے یہی ہدایات آئیں کہ مولانا شمس الدین کو حوالات سے نکالنے کا منصوبہ بنایا جائے۔ کیونکہ وہ حوالات سے نکلنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ ان سے کہا گیا پولٹیکل ایجنٹ ان سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا جواب تھا وہ یہاں آکر مجھ سے بات کرلیں۔ تھوڑی دیر بعد انہیں بتایا گیا۔ پولٹیکل ایجنٹ تھانے میں آگئے ہیں۔ ان کی درخواست ہے وہ دفتر میں آکر ان سے مل لیں۔ مولانا شمس الدین تو جانے کے لئے تیار نہیں تھے۔ لیکن دوسرے حضرات کے اصرار پر جب وہ تھانے کے دفتر میں پہنچے تو وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ پولیس حکام نے غلط بیانی پر معذرت کرتے ہوئے مولانا شمس الدین سے کہا کہ انہیں یہ احکامات اوپر سے ملے تھے۔
جلتی پر تیل
پندرہ جولائی ۱۹۷۳ء کی صبح تک راتوں رات ضلعی انتظامیہ نے شہر بھر کے مرزائیوں کو جو بال بچوں سمیت پچاس کے لگ بھگ تھے۔ ایک جگہ جمع کرلیا۔ اس سے پیشتر ان کے گھروں پر پولیس اور فرنٹیئر کور (ملیشیا) کے خود کار آتشین ہتھیاروں سے مسلح دستے متعین کردئیے گئے تھے۔ حالانکہ تحریک کے رہنمائوں نے ۴۸؍گھنٹے تک ان کا بال بیکا نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ پندرہ جولائی کی صبح جب مرزائیوں کو لے جانے والی بس تھانے کے سامنے کھڑی تھی۔ ایک ہجوم وہاں جمع ہوگیا اور اسی میں سے کسی نے فائر کردیا۔ جو مرزائیوں کے سربراہ مستری اﷲ یار کے بازو میں لگا۔ بعد میں پولیس نے زرگر عبدالرحمن کوہاٹی کو فائرنگ کے الزام میں پکڑ لیا۔ فائرنگ کے اس حادثے کے بعد مرزائیوں کے انخلاء کو ملتوی کردیا گیا۔ پندرہ جولائی کو گرفتاریوں کے خلاف ایک روزہ ہڑتال پہلے ہی تھی۔ لیکن اب مرزائیوں کے انخلاء میں التواء نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ تحریک کے باقی ماندہ رہنمائوں نے فیصلہ کیا کہ اس وقت تک مکمل ہڑتال جاری رہے گی جب تک ان تین مطالبات کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔
۱… ژوب سے مرزائیوں کا فوری انخلائ۔