جلوس کے قائدین نے اپنے تین نکاتی مطالبہ پیش کیا۔ جناب بلوچ نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ مرزائی سربراہ مستری اﷲ یار کے گھر پر چھاپہ مار کر قرآن کے تحریف شدہ نسخے قبضہ میں لے چکی ہے۔ دوسرے مطالبے کے لئے جناب بلوچ نے مزید مہلت مانگی جسے جلوس کے قائدین نے مشورے سے مزیدچوبیس گھنٹے یعنی ۴۸؍گھنٹے کردیا۔ تیسرے مطالبے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ مرکزی حکومت سے متعلق ہے اور وہاں پہنچا دیا جائے گا۔ چنانچہ جلوس واپس ہوگیا۔
در زنداں کھلا
بہائی کی ہلاکت کے بعد حالات سنگین صورت اختیار کرسکتے تھے اور مرزائی بھی اسی قسمت سے دو چار ہوسکتے تھے۔ لیکن پولٹیکل ایجنٹ جناب فقیر محمد بلوچ نے حکمت عملی سے حالات پر قابو رکھا مگر ایسا محسوس ہوتا ہے۔ صوبائی اور مرکزی دارالحکومت میں براجمان بعض حضرات کی طبع پر یہ سب کچھ گراں گزر رہا تھا۔ چنانچہ شام تک صورتحال بدل چکی تھی۔ ایک طرف بدنام زمانہ فیڈرل سکیورٹی فورس کے دستے فورٹ سنڈیمن روانہ ہوچکے تھے۔ تو دوسری طرف گرفتاریوں کے احکامات جاری ہوچکے تھے۔ عصر کے وقت پولیس انسپکٹر نے خطیب جامع مسجد مولانا میرک شاہ کو پیغام بھیجا کہ وہ تھانے میں آئیں۔ کیونکہ کوئٹہ سے ڈی آئی جی۔ پولیس آرہے ہیں جوان سے صورتحال پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔
مولانا میرک شاہ اور دوسرے حضرات تھانے گئے۔ انہیں گرفتاری کا یقین تھا۔ مولانا میرک شاہ نے تھانے میں پولیس انسپکٹر سے ڈی آئی جی کے بارے میں دریافت کیا تو پولیس انسپکٹر نے بتایا کہ وہ کوئٹہ سے روانہ ہوچکے ہیں۔ آٹھ نو بجے رات کے درمیان یہاں پہنچیں گے۔ مولانا میرک شاہ نے کہا کہ وہ بھی اسی وقت آجائیں گے۔ پولیس انسپکٹر نے انہیں جانے دیا۔ شاید اس کی یہ وجہ بھی ہو کہ تھانے پر عوام کے ہجوم کا خطرہ تھا۔ نماز عشاء کے بعد مسجد سے ملحق مدرسے کے صحن میں تمام جماعتوں کے رہنمائوں اور نمایاں شہریوں کا کھلا اجلاس منعقد ہوا۔ اس وقت تک تصدیق ہوگئی کہ حکومت نے نوافرادکی گرفتاری کا حکم جاری کردیا۔ جن میں مولانا میرک شاہ خطیب جامع مسجد وسرپرست جمعیت العلماء اسلام کے علاوہ شیخ عمر مندوخیل صدر مجلس تحفظ ختم نبوت، صوفی محمد علی سیکرٹری مجلس تحفظ ختم نبوت، مولانا رحمت اﷲ، مولانا محمد اسحق خوشی، مولوی عبدالرحمن، مولوی احمد شاہ، جناب محمد جان (پشتون خوا کے مقامی رہنما) اور حاجی مڑمند خان مردان زئی شامل ہیں۔
اس اجلاس میں طے پایا کہ پرامن تحریک جاری رکھی جائے گی اور گرفتاریاں پیش کی