تحفظ ختم نبوت کے سیکرٹری صوفی محمد علی جو قصبے کے معروف تاجر بھی ہیں، کے ہاتھ قرآن کاا یک نسخہ لگا۔ جسے مرزائی کئی دنوں سے تقسیم کررہے تھے۔ اور جس کے متعلق چہ میگوئیاں جاری تھیں۔ صوفی محمد علی نے اسے اپنے ساتھی کئی دکانداروں کو دکھایا اور مجلس تحفظ ختم نبوت کے صدر شیخ عمر خان مندوخیل کے علم میں بھی لائے۔ دریں اثناء اس مختصر سے قصبے میں یہ بات رات پڑنے تک پھیل چکی تھی کہ مرزائی خفیہ خفیہ جس ’’قرآن‘‘ کو پھیلا رہے ہیں۔ وہ مل گیا ہے۔ مشہور یہ تھا کہ مرزائیوں نے ہزاروں کی تعداد میں تحریف شدہ نسخے منگوائے ہیں اور اسے اچھی چھپائی اور طباعت کی بدولت کم فہم لوگوں میں پھیلا رہے ہیں۔ کہا جارہا تھا۔ مرزائیوں کے مقامی سربراہ مستری اﷲ یار نے ایسے تین ہزار نسخے منگوائے ہیں۔
ژوب میں مرزائیوں نے جو ’’قرآنی‘‘ ترجمے اور تفسیریں بانٹی تھیں۔ ان میں معنوی تحریف کی گئی تھی۔ یہ تحریف شدہ ’’قرآنی‘‘ ترجمے اور تفسیریں ہیڈ کوارٹرز ربوہ کی شائع کردہ تھیں۔ ان میں مرزائیوں کے ’’نبی‘‘ کے خلیفہ دوم مرزا بشیر الدین محمود کی ’’تفسیر صغیر‘‘ بھی شامل ہے۔ اس کا ایک نسخہ جو ضلعی حکام کے ضبط شدہ نسخوں میں سے تھا۔ مجلس عمل کے سیکرٹری حافظ عبدالغفور نے ہمیں دکھایا جس میں مرزائی عقائدکے مطابق قرآن کی معنوی تحریف میں سے بعض مقامات کو نشان زدکیا گیا تھا۔
مرزائی ترجمے کے مطابق سورہ فاتحہ کی آخری آیت کے نصف ’’غیر المغضوب علیہم ولاالضالین‘‘ کا ترجمہ کیا گیا تھا۔
جن پر نہ تو بعد میں تیرا غضب نازل ہوا ہے اور نہ وہ بعد میں گمراہ ہوگئے ہیں۔ (ص۴)
سورۃ البقرہ کی آیت نمبر۵… ’’والذین یؤمنون بماا نزل الیک ومآ انزل من قبلک وبالآخرۃ ہم یوقنون‘‘ کا ترجمہ یہ تھا۔
’’اور جو تجھ پر نازل کیا گیا ہے، یا جو تجھ سے پہلے نازل کیا گیا تھا، اس پر ایمان لاتے ہیں اور آئندہ ہونے والی موعود باتوں پر بھی یقین رکھتے ہیں۔‘‘ (ص۵)
(خط کشیدہ فقرے تحریف شدہ ترجمہ ہیں)
یہ صرف دو نمونے ہیں، وگرنہ ہر صفحہ اسی طرح کی معنوی تحریف سے داغدار ہے۔ یہ وہ چیز تھی جسے قرآن کا ترجمہ اور تفسیر قرار دیکر پھیلایاجارہا تھا۔ یہاں عوام کے لئے بالعموم اور حفاظ وعلماء اسلام کے لئے بالخصوص یہ نقطۂ فکر بھی ہے کہ ربوہ کے شائع کردہ ’’قرانوں‘‘ پر اس پہلو سے بھی غور کیا جائے کہ کہیںا س میں لفظی تحریف بھی موجود نہ ہو۔