کردیا۔ لیکن کیا ہم ان قابل یادگار ہستیوں کی زندگی سے خود کوئی سبق حاصل نہ کریں گے۔ اور ان کی پیروی میں ہم دین وملت کی خدمت انجام دینے کا کوئی منصوبہ نہ بنائیں گے؟
جدید سرکاری تحقیقات کی ضرورت
جہاں تک شہداء کے ورثاء کی نگہداشت کا تعلق ہے میں حسب ذیل تجاویز پیش کرتا ہوں:
۱… ۱۹۱۹ء میں جب برطانوی حکومت نے پنجاب میں مارشل لاء لگایا تھا تو اس کے بعد مارشل لاء کے دوران میں جن لوگوں کو جانی یا مالی نقصان پہنچایا کسی افسر نے اپنے فرائض منصبی سے تجاوز کیا۔ اس کی تحقیق کے لئے ایک کمیشن مقرر کیا گیا تھا۔ اس کمیشن کی سفارشات کے مطابق نقصان اٹھانے والوں کو معاوضہ بھی دیا گیا تھا۔ معاوضہ کی رقم کا تعین کرنے کے لئے لنگلے کمیشن مقرر ہوا تھا۔ جس میں عوام کے نمائندے بھی شامل تھے۔ ۱۹۵۳ء کے مارشل لاء کے متعلق اگرچہ ایک عدالت انکوائری کرچکی ہے۔ لیکن اس انکوائری میں عوام کے جانی اور مالی نقصان کا اندازہ کرنا شامل نہ تھا۔ نہ ہی فرائض منصبی سے تجاوز کرنے والے افسروں کی کوئی پرستش کی گئی۔ بلکہ یہ عدالت تو اس مفروضے پر مقرر کی گئی تھی کہ مارشل لاء کا نفاذ بہر صورت ضروری تھا۔ اس کے نفاذ میں تاخیر کیوں ہوئی۔ اب جب کہ حالات بدل چکے ہیں ہیں اور Indimnity act کو منظور کرنے والی نہ وزارت باقی ہے نہ وہ پارلیمنٹ باقی ہے تو یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عوام اور پارلیمنٹ کے نمائندوں پر مشتمل ایک ایسا کمیشن مقرر کیاجائے جو یہ تحقیق کرے کہ عوام کو کس قدر جانی اور مالی نقصان پہنچا۔ اختیارات سے تجاوز کی کون سی مثالیں ہیں۔ علاوہ ازیں مجروحین اور شہداء کے ورثاء کو معقول مالی معاوضہ دیا جائے۔ شہر کی جن املاک کو نقصان پہنچا۔ ان کی مرمت کی جائے۔ جن جماعتوں یا افراد کا سرمایہ ضبط کرلیاگیا تھا۔ وہ انہیں واگزار کردیا جائے۔ جن لوگوں کو ناواجب جرمانے کئے گئے، وہ واپس کئے جائیں۔ جن کو ناجائز سزائیں ملیں، ان کو ہرجانہ دیا جائے۔ اور جن افسران نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ان کو مناسب سزا دی جائے۔
۲… شہداء ختم نبوت کے اعزاز میں چھ مارچ کو مکمل تعطیل ہوا کرے۔
۳… تمام مغربی پاکستان کے جن جن مقامات پر شہداء پر آتش بازی کی گئی۔ وہاں یادگاری مینار نصب کئے جائیں اور ان پر ایک تختی لگا کر اس پر مختصر حالات درج کئے جائیں اور جو لوگ شہید ہوئے۔ ان کے نام ولدیت، جائے سکونت اور عمر کی بھی وضاحت کی جائے۔
۴… شہداء کے مزارات کی جہاں نشان دہی ہوسکے۔ وہاں سرکاری خرچ پر ان کے مزارات