سو سال پہلے انگریز انہیں کہتے تھے کہ تمہارا ملک ہم نے آباد کیا ہے۔ تم شاہ برطانیہ کی رعایا ہو۔ لہٰذا ہم تم سے پوچھے بغیر تم پر ٹیکس لگا سکتے ہیں اور امریکی باشندے احتجاج کرتے تھے کہ:
"No taxetion without representation"
یعنی جس سیاست میں ہمیں نیابت حاصل نہیں۔ اس سیاست کو ہم سے ٹیکس وصول کرنے کا کیاحق حاصل ہے؟ لیکن تاریخ کی ستم ظریفی دیکھئے کہ جو اہل امریکہ اس اعلان آزادی کے نام پر ایک قوم بنے۔ ۱۹۵۳ء میں اسی امریکہ کے اثرورسوخ نے مصر کے اندر کرنل ناصر سے ’’اخوان المسلمین‘‘ کا معصوم خون بہایا۔ ایران میں مصدق جیسے بطل جلیل اور محب وطن کو پابند سلاسل اورقید تنہائی کا اسیر کردیا گیا۔ فاطمی کو گولی مار دی گئی۔ اور فدایان اسلام کا وہ نواب صفوی جو قرآن مجید بغل میں لے کر شب وروز اسلامی حکومت کے قیام کی تبلیغ کرتا تھا۔ مارشل لاء کے ماتحت شہید کردیا گیا۔
کم وبیش یہ وہی ایام تھے جب پاکستان میں شہداء ختم نبوت اپنی جانیں جان آفریں کو سپرد کررہے تھے۔ شاید قدرت جب اپنے بندوں کا امتحان لیتی ہے تو ایک ہی وقت میں مختلف ممالک کے اندر یکساں عقیدے رکھنے والوں کو ایک ہی قسم کے امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے۔
سابقہ معروضات کا لب لباب
ہم شہداء ختم نبوت کی یادگار منانے کے لئے اس کانفرنس میں جمع ہوئے ہیں۔ اس وقت تک میں نے آپ کو بتایا ہے کہ یادگار آج سے چار برس پہلے اس پیمانے پر کیوں نہ منائی جاسکی۔ وہ کیا مطالبات تھے جن کی خاطر ان شہیدوں نے جانیں دیں۔ وہ مطالبات کیوں پیش کئے گئے تھے۔ جنہوں نے ان مطالبات کو نامنظور کیا اور بزعم خود شہداء کو نیست ونابود کردیا۔ آج وہ خود اور ان کی سیاسی جماعتیں اور ان کا اقتدار اور وہ تمام ادارے جن کی بناء پر وہ ظلم وستم کرتے تھے۔ سب نیست ونابود ہوچکے ہیں۔
اس مرحلے پر میں اپنی گزارشات ختم کرنے سے پہلے دو مزید موضوعات آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
اوّل…یہ کہ کیا ہم صرف شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے پر اکتفا کریں گے اور ان کے ورثاء کی دست گیری کا کوئی اہتمام نہ کریں گے۔ کیا ہماری یہ کانفرنس صرف کانفرنس تک محدود رہے گی اور ہم شہداء کی یادگار کے لئے کوئی ٹھوس آثار کھڑے نہ کریں گے؟
دوسرے… یہ کہ یادگار تو ہم نے منالی۔ جن کی یادگار منانی تھی ان کا چرچا بھی ہم نے