کہ تحریک کو آئندہ چلانے کے لئے اس کی گزشتہ تاریخ سے واقف ہونا از بس ضروری ہے۔ میں بیان کرچکا ہوںکہ بحالات موجودہ راست اقدام کی ضرورت نہیں۔ لیکن ۱۹۵۳ء میں جو راست اقدام کیا گیا تھا اس کے متعلق غلط فہمیاں دور کرنا اور حقیقت حال کو معلوم کرنا تحریک تحفظ ختم نبوت کے آئندہ پروگرام کے لئے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
راست اقدام کی تاریخ
راست اقدام کی تاریخ سمجھنے کے لئے ہمیں ۱۹۱۹ء اور ۱۹۲۰ء کے پرآشوب دور کی جانب رجوع کرنا ہوگا۔ مولانا محمد علی جوہر وہ مرد مجاہد تھے جنہوں نے اس برصغیر کے دور غلامی کے حالات پر غور کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انگریزی استبداد کوملک کے اندر متشدد بغاوت سے ختم کرنا ممکن نہ تھا۔ فقہ اسلامی کا بھی یہ مسئلہ ہے کہ جب نہ قدرت ہو اور نہ امکان قدرت بلکہ جہاد کے آغاز میں ہی ہلاکت یقینی ہو تو امیر کو حتی الوسع قتال شروع کرنے میں توقف کرنا چاہئے۔ مولانا محمد علی جوہرؒ مرحوم نے اس وقت کے تمام سرکردہ علماء سے مشورہ کیا کہ اسلام دین فطرت ہے۔ وہ ہر قسم کی صورت حال کا مقابلہ کرنے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ اس وقت جب کہ ملک میں فرنگی کا غلبہ ہے۔ غدار طاقتوں نے انگریز کا ساتھ دینے کا تہیہ کرلیا ہے۔ اس وقت مسلمان جنگ آزادی کے لئے کیا حربہ استعمال کریں۔ ان لوگوں نے بین الاقوامی حالات پر نگاہ کی۔ برصغیر میں مسلمانوں کی قوت کا جائزہ لیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ جب کفر کا مقابلہ مادی لحاظ سے ناممکن ہوجائے تب بھی یہ امکان تو ہمیشہ باقی رہتا ہے کہ کفر کے ساتھ تعاون نہ کیا جائے۔ کفر کو ظلم کرنے میں بھی ایسے مجبور کیا جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ظلم کرنے پر مجبور ہوتا جائے۔ حتیٰ کہ ظلم وشدت کی اس انتہا کو پہنچ جائے۔ جہاں سے اس کا جاری رکھنا ظالم کے لئے ناممکن ہوجائے۔
اس نئے حربہ جنگ کو اور نئے اصول جنگ کو تحریک عدم تعاون اور ترک موالات کا نام دیا گیا۔ غالباً اس اصول اور حربے کا سرچشمہ آیت قرآنی تھی کہ ’’تعا ونوا علی البر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان‘‘ نیکی اور بھلائی کے کام میں تعاون کرو۔ لیکن گناہ اور سرکشی سے تعاون نہ کرو۔ خود جواہر لال نہرو کی اپنی خود نوشتہ سرگزشت میں یہ اقرار ہے کہ برصغیر میں پہلی سول نافرمانی مولانا محمد علی جوہر نے جمعیت العلماء کے تعاون سے شروع کی۔ گاندھی اور انڈین نیشنل کانگریس نے کہیں ایک مہینہ بعد جا کر مسلمانوں کی پیروی میں اس سول نافرمانی میں حصہ لینا شروع کیا۔ لیکن مسلمانوں کو یہ دقت تھی کہ ان کے اخبارات بہت تھوڑے تھے۔ انگریزی زبان میں تو مسلمان کے اخبارات بہت ہی کم تھے۔ اور پھر ان اخبارات میں سے