آگے لکھتے ہیں: ’’میں نے ایک سکیم بھی تیار کی ہے جس کے ماتحت پچیس سال تک کے تمام نوجوانوں کو منظم کیا جائے گا۔ لیکن علاوہ اس تنظیم کے ہمارے جماعت کے ہر فرد کو حکومت کے اس معاملہ میں مدد کرنی چاہئے۔ ‘‘(حکومت کی مدد کروگے تو حکومت مضبوط ہوگی۔ مگر یہ بتائو کہ تمہارے مرزا کی پیش گوئی جو حکومت کی تباہی کے لئے کی گئی ہے۔ کیونکر پوری ہوگی۔ پس کیا یہ باتیں تم دل سے کہہ رہے ہو) (خطبہ خلیفہ قادیان مندرجہ الفضل ۷؍جولائی ۳۲ئ)
سوال یہ ہے کہ اب اپنی جماعت کے نوجوانوں کو حکومت کی امداد کے لئے تیار کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔ کیا ہندوستان مسلمان ہوگیا؟ خاص قادیان کی کہو کہ وہاں ہند، سکھ، عیسائی باقی نہیں رہے۔ کیا اسلام کو آج سپاہیوں کی ضرورت نہیں رہی۔ اسلام کا وہ درد جو ۱۹۱۴ء میں پیدا ہوا تھا کہاں گیا۔ کیا اسلام کی خدمت کا کام ختم ہوچکا۔ جواب اس سے فارغ ہوکر خدا کو ملنے کے بجائے اب دنیا یعنی سیاست کے پیچھے پڑے ہو۔
ہمیں اس وقت اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ قادیانی فوج تیار ہوئی تو کیا کرے گی؟ ۱…جولوگ قادیان میں مذبح کو نہ بچا سکے وہ کیا کریں گے۔ ۲…یہ صرف لفظی طور پر حکومت کے خوش کرنے کے لئے فوج کی تیاری کا اعلان کیا ہے۔ ۳…یہ سمجھا ہے کہ حکومت کو امداد کی ضرورت تو ہوگی نہیں۔ لفظی ہمدردی میں کیا حرج ہے۔ کیونکہ ہمارا مقصود تو اس وقت قادیانی خلیفہ کے اقوال سے ان کی دورنگی ظاہر کرکے یہ ثابت کرنا ہے۔ کہ یہ کمپنی کوئی مذہبی جماعت نہیں بلکہ ایک تجارتی کمپنی ہے۔ جس نے مذہب کی اوڑھنی اوڑھ رکھی ہے۔
قادیانی کمپنی کا موجودہ طرز عمل ملاحظہ فرمائیے۔ کشمیر میں فتنہ انگیزی، معاملات کشمیر میں دخل درمعقولات، کشمیر کمیٹی کا ڈھونگ، مسلم لیگ کی صدارت، ایک قادیانی کا گول میز کانفرنس میں جانے کے لئے انتہائی کوشش کرنا وغیرہ ذالک۔
قادیانی ان معاملات میں کیوں منہمک ہیں۔ یا مسلمانوں کے معاملات میں دخل دے کر قادیانیوں کا کیا حشر ہوتا ہے۔ اس وقت اس چیز پر ہماری بحث نہیں۔ ہمارا سوال تو صرف یہ ہے کہ کیا اسلام کی خدمت کا کام سرانجام پا چکا۔ جواب سیاست میں دخل دے رہے ہو۔ اور تمہارا یہ اعلان کہاں گیا؟ ’’اگر ہم تھوڑے سے آدمی بھی سیاست میں لگ جائیں تو اور کون ہوگا جو اسلام کی خدمت کرے گا۔ اگر تمہیں خدا پیارا ہے تو سیاست کو چھوڑ دو۔‘‘
پس یا تو مانو کہ اب خدا پیارا نہیں یا اس بات کا اقرار کرو کہ بقول خود ’’سیاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔‘‘ تم دراصل ہو ہی سیاسی گروہ۔