لوگ ان کے ہم مذہب ہم قوم اور وفادار تھے۔ لیکن ان تعلقات کے ہوتے ہوئے جب زبردست کے مقابلہ میں پرواہ نہ کی گئی۔ تو صرف وفاداروں کو جو نہ ان کے ہم مذہب ہیں۔ اور نہ ہم قوم، ساتھ چھوڑ دینا کونسی اچنبے کی بات ہے۔‘‘(خلیفہ محمود) (الفضل ۱۱؍اکتوبر۱۹۲۹ء ص۶)
مذکورہ بالا اقوال تو اس وقت کے ہیں۔ جب کانگریس زوروں پر تھی۔ مگر جونہی چند دن بعد کانگریس قادیانیوں کے خیال میںی ناکام دکھائی دی تو خلیفہ قادیان ارشاد فرماتے ہیں: ’’ہندوستان کے سے غریب ملک میں اسی قسم کی دوسری تحریکیں جو لاکھوں آدمیوں کو قوت لایموت مہیا کرنے سے باز رکھ رہی۔ جس قدر تباہی اور بدامنی پیدا کرسکتی ہیں وہ ظاہر ہے، اور حالات جس حد تک نازک ہوچکے ہیں۔ وہ خود کانگرسیوں سے بھی پوشیدہ نہیں۔ لیکن باوجود اس کے وہ اصلاح کی طرف متوجہ ہوتے نظر نہیں آتے۔ حالانکہ عقل مندی اور دور اندیشی کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ انسان کوئی ایسی راہ اختیار نہ کرے جو حریف کے علاوہ اپنے آپ کو بھی ہلاکت کے گڑھے میں گرادے مگر ان لوگوں کو جو ہندوستان کے نجات دہندہ بننا چاہتے ہیں۔ اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ وہ دیکھ ر ہے ہیں کہ ان کے افعال حکومت کی نسبت خود ان کے لئے ان کے ملک کے لئے اور ان کے ہم وطنوں کے لئے زیادہ نقصان رساں اور ہلاکت آفرین ثابت ہورہے ہیں۔
مگر ان سے باز نہیں آتے کسی نہ کسی مرحلہ پر پہنچ کر انہیں باز تو آنا پڑے گا۔ کیونکہ جوں جوںان کی غلط کاریوں اور نقصان رسانیوں سے عام لوگ آگاہ ہوتے جائیں گے۔ ان کا وہ جوش سرد ہوتا جائے گا۔ جس کی وجہ سے اندھا دھند کانگرسی لیڈروں کے پیچھے چل رہے ہیں۔ اور جوں جوں اس کے زخم ٹھنڈے ہوتے جائیں گے۔ تھک اور ہار کر ساتھ چھوڑنے پر مجبور ہوتے جائیںگے۔ اس کے آثار ابھی سے نظر آرہے ہیں۔ چنانچہ مختلف صوبوں میں وہ لوگ جنہوں نے بڑے جوش وخروش سے قانون شکنی کی تھی۔ گورنمنٹ سے معافی مانگ کر اور آئندہ اس قسم کی حرکات نہ کرنے کا عہد کرکے رہائی حاصل کررہے ہیں۔ اور ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔‘‘ (الفضل ۶؍ستمبر ۱۹۳۰ء ص۳)
اور سنئے کانگریس پر نکتہ چینی کرتے ہوئے آپ ارشاد فرماتے ہیں: ’’پس میں جماعت کوپورے زور سے نصیحت کرتا ہوں کہ وہ خلاف امن تحریکات کی خبر گیری کریں۔ اور وقتاً فوقتاً مجھے اطلاعات بھیجتے رہیں۔‘‘ (تاکہ یہی اطلاعات حکومت کو بھیج کر اپنا احسان جتایا جائے کہ دیکھو ہم سی آئی ڈی کا کام سرانجام دیتے ہیں)