میں شامل ہوکر اس کے خوشگوار بوجھ کو سر پر اٹھا لینا چاہئے۔ شعبہ ہذا کو قادیان میں کافی زمین مل چکی ہے۔ جو مسئلہ ختم نبوت کی تبلیغ واشاعت اور درس وتدریس کے لئے وقف ہوچکی ہے۔ مسجد کی بنیادیں پڑ چکی ہیں۔ کنواں بن کر جاری ہے جس سے کاشت ہورہی ہے۔ یہاں کے مسلمان بچوں کے لئے پرائمری اور دینیات کا مدرسہ کھلا ہوا ہے۔ جنگ کی وجہ سے بہت سا کام رکا پڑا ہے۔ ورنہ شعبہ تبلیغ مجلس احرار اسلام اپنی دینی خدمات کو نمایاں طور پر مسلمانوں کے سامنے رکھ سکتا۔ مسلمانان ہند سے فقیر کی درخواست ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے لئے اس طرح توجہ کریں۔ اور اس نیک کام میں شریک ہوکر دامے، درمے، جامے، مالے، خیالے، قدمے امداد کرکے دربار رسالت علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والتحیۃ میں اپنے کو سرخرو کریں اور اس کام کو مسلمانوں کے لئے وسیلہ نجات بنائیں۔
چونکہ قادیان میں مسلمان مسافروں کے لئے کھانے پینے کی کوئی دکان نہیں ہے۔ اس لئے شعبہ تبلیغ کی طرف سے ایک لنگر خانہ بھی جاری ہے۔ جس میں خاص کر ورغلائے ہوئے مسلمانوں کو کھانا دیا جاتا ہے۔ اور دوسرے مسافروں کو بھی کھانا دیا جاتا ہے۔‘‘
دستخط… فقیر سید عطاء اﷲ بخاری
۳… مجاہد سرحد حضرت مولاناغلام غوث صاحب ہزاروی کی رائے
’’۱۹۳۵ء کی احرار تبلیغ کانفرنس قادیان کے بعد پہلی بار میں برائے ادائیگی نماز جمعہ اس عجیب وغریب بستی میں حاضر ہوا۔ مجلس احرار اسلام ہند کے شعبہ تبلیغ نے کفر وارتداد ظلم وطغیان، زنا وگناہ کی روک تھام کے لئے شاندار کام جاری کررکھا ہے۔ فی الحال یہاں ’’جامعہ محمدیہ‘‘ کے نام پر ایک مدرسہ جاری ہے۔ جس میں اس وقت نوے کے قریب مسلمان بچے تعلیم پا رہے ہیں۔
اس عجیب بستی میں پہلے اصل مردم شماری صرف دو ہزار تھی۔ مگر مرزائی فتنہ کے بعد مرزائی تارکین وطن نے آکر یہاں کی آبادی میں سات ہزار کااضافہ کیا۔ یہی سب سے بڑی کمائی ہے جو مرزا آنجہانی نے آیات قرآنیہ کی تحریف کے مقابلہ میں حاصل کی۔ اس غلبہ آبادی کی وجہ سے اصلی باشندے جو مسلمان تھے، ظلم وستم قتل وغارت کی تاب نہ لاکر یہاں سے ہجرت کر گئے۔ جو تھوڑے سے رہے وہ ضعیف الایمانی کی وجہ سے اسلام کا اظہار نہ کرسکتے تھے۔ مجلس احرار کے تبلیغی مرکز کے قیام کے بعد اس قصبہ اور ماحول کے مسلمان اب علیٰ الاعلان اپنے کو مسلمان ظاہر کرسکتے ہیں۔