امت کونام بہ نام بازاری گالیاں دی ہیں ان کی طرف سے ایک گالی پیش کی جائے جو مرزاقادیانی کو پہلے یا اس سب وشتم کے بعد دی گئی ہو۔ کیا ہمارا یہ چیلنج منظور کرنے کی ہمت وقوت ہے۔
پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے
دوسرا جھوٹ
اگر مرزاقادیانی ’’لوگوں کو گالیاں فراخدلی سے سن کر‘‘ ہنس دیتے ہیں اور پرواہ تک نہیں کرتے تو پھر یہ مغلظات مرزا کس کا افتراء ہے۔ آخر مرزاقادیانی کی پاک تصنیفات میں یہ خرافات، یہ سوقیانہ سب وشتم یہ بدزبانی وگالی گلوچ کی نجاست اور غلاظت کس نے داخل کر دی ہے؟ جس کی ایک ہلکی سی جھلک ہم نے اسی نمبر کے صفحات پر دکھلائی ہے۔
تیسرا جھوٹ
آخری جھوٹ اور انتہائی کذب ودروغ یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کے متعلق کوئی مضمون شائع ہو۔ جس پر آپ کی ذات پر کوئی حملہ ہو تو اس کی غیرت جوش میں آجاتی ہے اور چین نہیں لیتے۔ جب تک اس کا جواب نہ دے دیں۔
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
اس لئے اس صریح غلط بیانی اور غلیظ فریب کاری کا پردہ خود مرزاقادیانی کے ہاتھوں چاک ہوتا دیکھئے۔
سنئے اور جگر تھام کے سنئے! مرزاقادیانی لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں: ’’بہتوں نے اپنی بدذاتی اور مادری بدگوہری سے ہمارے نبیﷺ پر بہتان لگائے۔ یہاں تک کہ کمال خباثت اور پلیدی سے اس سید المعصومین پر سراسر دروغ گوئی کی راہ سے… تہمت لگائی۔ اگر غیرت مند مسلمانوںکو اپنی محسن گورنمنٹ کا پاس نہ ہوتا تو ایسے شریروں کو وہ جواب دیتے جو ان کی بداصلی کے مناسب حال ہوتا۔ مگر شریف انسانوں کو گورنمنٹ کی پاسداریاں ہر وقت روکتی ہیں اور وہ طمانچہ جو ایک گال کے بعد دوسرے گال پر عیسائیوں کو کھانا چاہئے تھا ہم لوگ گورنمنٹ کی اطاعت میں محو ہوکر پادریوں اور آریوں سے کھا رہے ہیں۔ یہ سب بردباریاں ہم اپنی محسن گورنمنٹ کے لحاظ سے کرتے ہیں اور کریں گے۔ کیونکہ ان احسانات کا ہم پر شکر کرنا واجب ہے جو خدائے تعالیٰ کے فضل نے اس مہربان گورنمنٹ کے ہاتھ سے ہمارے نصیب کئے اور نہایت بدذاتی ہوگی اگر ایک لحظہ کے لئے بھی کوئی ہم سے ان نعمتوں کو فراموش کر دے جو اس گورنمنٹ کے ذریعے سے