اشاعت اوّل
۲۴؍رجب، یکم؍شعبان ۱۳۶۸ھ، مطابق ۲۴،۳۱؍مئی ۱۹۴۹ء
تنظیم اہل سنت کا ’’مرزاغلام احمد نمبر‘‘
مولانا ظفر علی خان!
بابائے شاعری وصحافت حضرت مولانا ظفر علی خان صاحب مدظلہ العالی ایمان کی ایک
(بقیہ حاشیہ گذشتہ صفحہ) ہم تو یہی کہتے ہیں کہ مرزاقادیانی کی صداقت کے متعلق صحیح نتیجہ پر پہنچنے کے لئے یہ دیکھنا چاہئے کہ تمام پیش گوئیاں جس میں یہ محمدی بیگم کی پیش گوئی بھی شامل ہے پوری ہوئیں یا نہیں۔ آپ اس معیار پر مرزاقادیانی کو جانچنے کے لئے تو خود تیار نہیں اور کہتے دنیا کو ہیں کہ یہ طریق انصاف اور راہ صواب نہیں۔ اس پر سوائے اس کے ہم اور کیا عرض کریں ؎
تاکے ملامت مژۂ اشکبار من
یک بارہم ملامت چشم سیاہ خویش
بہرحال مولوی صاحب کا اس معیاری پیش گوئی کو غلط تسلیم کرلینا غنیمت ہے۔ لیکن اس پر ہم انہیں ہدیۂ مبارکباد پیش نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ان کا یہ اعتراف حق وانصاف اور صدق وسداد کی بناء پر نہیں بلکہ ؎
عصمت بیبی ست از بیچارگی
مولوی صاحب نے حقیقت میں تمام راستے مسدود دیکھ کر اور کوئی راہ فرار نہ پاکر مجبوراً اس پیش گوئی کے غلط ثابت ہونے کا اقرار تو کر لیا۔ مگر مرزاقادیانی کی صداقت پر برابر ڈٹے رہے۔ حالانکہ مرزاقادیانی اپنے پرکھنے کی کسوٹی اور اپنے تولنے کا ترازو اس پیش گوئی ہی کو قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اصلی پیش گوئی اپنے حال پر قائم ہے اور کوئی آدمی کسی حیلہ یا مکر سے اسے روک نہیں سکتا اور یہ پیش گوئی خدائے بزرگ کی طرف سے تقدیر مبرم ہے اور عنقریب وہ وقت آئے گا مجھے قسم ہے خدا کی کہ محمدی بیگم کے خاوند کے مرنے اور اس کے بعد محمدی بیگم کے میرے نکاح میں آنے کی پیش گوئی سچی ہے۔ پس عنقریب تم دیکھ لو گے۔ میں اس پیش گوئی کو اپنے سچا یا جھوٹا ہونے کے لئے معیار قرار دیتا ہوں اور میں نے جو کچھ کہا الہام اور وحی سے معلوم کر کے کہا۔‘‘ (انجام آتھم ص۲۲۳، خزائن ج۱۱ ص۲۲۳)
مولوی صاحب مجدد اعظم اور اپنے ہادی ومرشد کو اس معیار پر رکھتے جو انہوں نے اپنے لئے خود پیش کیا ہے تو ببانگ دہل مرزاقادیانی کے جھوٹا ہونے کا اعلان کر دیتے ۔ (بخاری)