۴… پھر ہم کہتے ہیں کہ وہ (مرزا قادیانی) جری اﷲ فی حلل الانبیاء تھا یعنی تمام انبیاء کا نمونہ آپ کی ذات قدسی صفات میں جمع تھا۔
۵… آپ نے اس کو (مرزا قادیانی کو) نہیں پہچانا۔ مگر ہم نے تو اسے دیکھنے کی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ یقینا سیدنا محمدرسول اﷲﷺ کے جمیع کمالات قدسیہ کا جامع ہے۔ او ر ’’مبشراً برسول یأتی من بعدی ااسمہ احمد‘‘ کا مصداق۔
۶… جس بات نے حضرت محمدﷺ کو حضرت محمدﷺ بنادیا۔ وہی بات اس (مرزا قادیانی) میں ہمارے نزدیک موجود تھی۔
۷… اس (مرزا قادیانی) کے اقوال وتصانیف کا ایک ایک لفظ ہمارے لئے ایسا ہی حجت قوی اورقیمتی ہے جیسے کسی اور نبی کا۔
۸… جب ایک شخص کی بھی تعظیم کی جاتی ہے جو دوچار خادم رکھتا ہو اور کوئی مہذب آدمی پسند نہیں کرتا کہ ایک معمولی وجاہت کے انسان کو بھی براکہے۔ اور اس کی توہین کرے۔ تو آپ کے لئے یہ کیونکر جائز ہوگیا کہ اس خدا کے برگزیدہ جاہ وجلال کے نبی عظیم الشان نبی۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار کی شان رکھنے والے نبی ’’انت منی وانا منک ظہورک ظہوری‘‘ کے مخاطب نبی کو کھلے کھلے الفاظ میں گالیاں دیں۔‘‘ (الفضل قادیان ۱۶؍اکتوبر ۱۹۰۷ئ)
ہنرہولی نس موسیو بشیر اور ان کے عقیدت کیش یقین مانیں کہ ’’الفضل‘‘ کے محولہ فوق اقتباس کے الفاظ پڑھ کر فرط غیظ وغضب سے ہماری حالت دگرگوں ہوجاتی ہے۔ اور ہمارا غرق خون دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ہے۔ رسول اﷲﷺ سے ان کا منصب چھین کر کسی نااہل کو دے دینا مسلم آزاری کا ایک ایسا فعل ہے جس کے ارتکاب کی جرأت اس سوا تیرہ سوسال کے عرصہ میں قادیان والوں ہی کو ہوئی ہے۔ مسلمان باقی تمام حرکات مذبوحی کو برداشت کرسکتے ہیں لیکن اس کی تاب نہیں لاسکتے۔ کہ ہر ایرے غیرے کو محمد مصطفیﷺ بنا دیا جائے۔ اگر موسیو بشیر جنہیں اپنے لاکھوں مریدوں کے ایثار وفدویت پر گھمنڈ ہے۔ ہم چالیس کروڑ جان نثار محمدﷺ کو بھی کسی شمار وقطار میں سمجھتے اور ہمارے جذبات کی بھی پرواہ کرتے تو ہم ان کی خدمت میں عرض کرتے ؎
میخوردمصحف بسوز دآتش اندر کعبہ زن
ہر چہ خواہی کن ولیکن مسلم آزاری مکن
فــــــــــــقـــــــــــــط!