نبی بن کر کبھی ہرگز مسلماں ہو نہیں سکتا
کہاں سودا نبوت کا جب انساں ہو نہیں سکتا
کبھی بسوا کو حاصل نور ایماں ہو نہیں سکتا
مسلمانوں سے اس کا مکر پنہاں ہو نہیں سکتا
خبر تھی کس کو یہ ملعون فتنہ جابجا ہوگا
یہاں بسوا گدک سے آکے قمر الانبیاء ہوگا
بنا فخر رسل بسویشور بسون گڈی آیا
صداقت کے لئے مرزا کی شیطانی وحی لایا
غضب ہے حضرت یوسف سے برتر خود کو دکھلایا
حیا سوز اپنے قصوں سے ذرادل میں نہ شرمایا
نہ آئی شرم کچھ فرضی زلیخا کی کہانی سے
عزیز احباب کی توہین سے ایذا رسانی سے
سنا بسویشور سے آج کل ہر ایک کو وحشت ہے
کہ اس مامور کے طرز عمل سے سب کو حیرت ہے
مشیر خاص کو اس کے بہت شرم وندامت ہے
یہ تبلیغ واشاعت کا نتیجہ درس عبرت ہے
سنا بسویشور جی کے عجب الہام ہوتے ہیں
تحیّر خیز جس کے تحت میں سب کام ہوتے ہیں
کبھی ہے وحی ہم پے کے خزانے تجھ کو ملتے ہیں
کچھ الہام ہے اچھے گھرانے تجھ کو ملتے ہیں
نشاط انگیز عشرت کے ٹھکانے تجھ کو ملتے ہیں
نہال آرزو میں آشیانے تجھ کو ملتے ہیں
بشارت ہو تجھے تو لذت دنیا اٹھانا ہے
تو تخت وتاج بھی پانا حکومت بھی بنانا ہے
عزیزو دیکھنا مرزائیوں کی یہ صداقت ہے
یہی ان حصہ داران نبوت کی حماقت ہے
یہی تنظیم ہے تصویر تبلیغ واشاعت ہے
یہی عملی نمونے ہیں یہی سرگرم خدمت ہے
یہ دھوکے دے کر قریوں میں مبلغ بن کے جاتے ہیں
اشاعت کے فریب مکر سے مرتد بناتے ہیں
گدک سے بن کے بسونا کوئی بنگلور آتا ہے
انوکھی چال سے بسون گڈی میں گھر بناتا ہے
اشاعت کی نئی تحریک سے سکہ جماتا ہے
بنا اک انجمن ماموریت کے گل کھلاتا ہے
نوالا رنگ تھا دو چار پر جب چل گیا جادو
ریاست میں مبلغ بن کے بس پھرنے لگا ہرسو