قائل اس کو مخلوقات سے مشابہہ ماننے والا وغیرہ عقائد رکھنے والا کافر ہے کیونکہ بدعقیدگی کو اصطلاحاً ’’ذنب‘‘ نہیں کہتے۔}
واضح رہے کہ دور ردت میں مرتدین کے کئی گروہ تھے۔
۱… قوم کندہ اور قوم تمیم صرف فرضیت زکوٰۃ کی منکر تھی۔ اس لئے مرتد قرار دی گئی۔
۲… قوم حنیفہ اورقوم اسد کا ارتداد دووجہ سے تھا۔ فرضیت۱؎ زکوٰۃ سے انکار اور مسیلمہ۲؎ ۔ طلیحہ کی نبوت کا اعتراف۔
۳… قوم حنیفہ اس لئے بھی کہ وہ صبح اور مغرب کی نماز کی فرضیت کی منکر تھی۔ لہٰذا قوم حنیفہ سب سے بڑھ کر کافر تھی۔ (دورردت میں مرتدین کے اصناف وانواع کی تحقیق وتفصیل جہاں تک مجھے علم سے معالم السنن خطابی سے بڑھ کر کہیں نہیں۔ معالم حلب یا دمشق میں زیرطبع ہے۔
۴… صحیح مذہب یہ ہے کہ مسلمان ہونے کے لئے تمام ضروریات اسلام کا اعتراف لازم ہے۔ مثلاً حدوث عالم توحید باری تعالیٰ اس کا قدم اس کا عدل اور اس کی حکمت نفی تشبیہہ، تعطیل تمام انبیاء علی الخصوص حضورﷺ کی نبوت کا اقرار، آپﷺ کی شریعت کے دوام کا عقیدہ (مرزا نے تو جہاد کومنسوخ قرار دیا) اور یہ اعتراف کہ آپﷺ کی تعلیم تمام تر صحیح ہے۔ قرآن تمام احکام شرعیہ کی اصل ہے۔ کعبہ رخ ہوکر نمازیں ادا کرنا فرض ہے۔ زکوٰۃ، حج فرض ہیں۔ الغرض جو شخص تمام ضروریات دین کا معترف ہو وہی مسلمان ہے۔
علامہ تفتازانی شرح مقاصد ص۲۶۸ میں لکھتے ہیں: ’’اہل قبلہ کی تکفیر وعدم تکفیر کے متعلق اختلاف علماء صرف ایسی صورت میں ہے کہ کوئی فرقہ یا فرد، حدوث عالم، حشر اجساد وغیرہ ضروریات دین کا تو قائل ہے مگر بعض دوسرے عقائد میں عامہ مسلمین سے اس کا اختلاف ہو۔ مثلاً صفات الٰہیہ کا مسئلہ خلق افعال کا نظریہ وغیرہ مسائل اختلافیہ جن میں بااتفاق فریقین حق متعدد نہیں بلکہ واحد ہے۔ فقط ایسے فرقہ کی تکفیر وعدم تکفیر میں علماء کا اختلاف منقول ہوا ہے۔ ورنہ جو فرقہ یا فرد ضروریات دین کا منکر ہو جیسے قدم عالم کا معتقد ہو۔ یا قیامت یا خدا تعالیٰ کے علمی احاطے کا منکر ہو یا اسی نوع کا کوئی اور کفر اس سے سرزد ہو تو وہ باتفاق علماء کافر ہے۔ خواہ ہمہ عمر عبادت الٰہی میں صرف کرے۔‘‘
شرح فقہ اکبر میں ہے: ’’اہل قبلہ‘‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو ضروریات دین مثلاً حدوث عالم، حشر اجساد، خدا تعالیٰ کے احاطہ علمی اسی نوع کے دوسرے اہم مسائل کے معترف ہوں۔ بنا