تکفیر اہل قبلہ کی اصل
اس مبحث میں سب سے ضروری بات یہ ہے کہ مسئلہ مذکور کے اصلی الفاظ جو سلف سے منقول ہوئے ہیں۔ سامنے رکھے جائیں تاکہ مرتد زندیق اور عاصی کے درمیان مابہ الامتیاز قائم کیا جاسکے۔ شرح تحریر ابن ہمام مصنفہ ابن امیر الحاج ص۳۱۸ میں بحوالہ منتقی مسئلہ مذکور حضرت امام اعظم سے بالفاظ ذیل منقول ہوا ہے۔ ’’لانکفّر اہل القبلۃ بذنب‘‘ علیٰ ہذالقیاس ’’یواقیت‘‘ میں یہ مسئلہ حضرت امام شافعیؒ سے بھی مذکورہ بالا الفاظ سے منقول ہوا ہے۔ غرض یہ مسئلہ سلف صالحین سے جہاں کہیں بھی منقول ہوا ہے۔ ’’ذنب‘‘ سے مقید ہے لیکن ملحدوں اور زندیقوں نے ان کو غلط رنگ میں پیش کرکے اپنے کفروالحاد کو چھپانا چاہا ہے۔
جملہ مذکورہ کا حل
جملۂ مذکور کی ساخت اور وضع صاف بتلا رہی ہے کہ یہ جملہ دراصل خوارج پھر معتزلہ کی تردید میں کہا گیا۔ ضروریات دین کے منکر اس سے مراد نہیں تھے۔ خوارج گنہگار کو کافر قرار دیتے ہیں اور بقول معتزلہ عاصی نہ مومن ہے نہ کافر۔ علامہ قونوی، حنفی شرح عقیدہ طحاویہ ص۲۴۷ میں لکھتے ہیں: ’’اس جملہ میں خوارج کی تردید ہے جو گناہ کے مرتکب کو (صغیرہ ہو یا کبیرہ) کافر کہتے ہیں اور بعض خوارج فقط کبیرہ کے مرتکب کو کافر قرار دیتے ہیں۔ علیٰ ہذالقیاس اس جملہ میں معتزلہ کی بھی تردید ہے۔ جن کے ہاں مرتکب گناہ ایمان سے قطعاً محروم ہوجاتا ہے جس کی پاداش میں ابدالآباد تک جہنم میں رہے گا۔ گوکفر میں داخل بھی نہیں ہوتا۔‘‘
۲… شیخ ابن تیمیہ فرماتے ہیں: ’’نحن اذا قلنا اہل السنۃ متفقون علی انہ لا یکفر بالذنب فانما یرید بہ المعاصی کالزنا والشرب‘‘(ص۱۲۱ کتاب الایمان){ہم جب یہ کہیں کہ اہل سنت گناہگار کو کافر نہیں کہتے تو اس سے ہماری مراد فقط عاصی ہوتا ہے جیسے بدکار اور شراب خور وغیرہ (ضروریات دین کا منکر مراد نہیں ہوتا)}
۳… شرح فقہ اکبر بحث ایمان میں علامہ قونوی سے نقل ہے: ’’ولم اجدہ لعلہ لاختلاف النسخ وفی قولہ بذنب اشارۃ الی تکفیر لفساد اعتقادہ کفساد الاعتقاد المجسمۃ والمشبہۃ ونحوہم لان ذلک لا یسمی ذنبا والکلام فی الذنب‘‘ {لفظ ’’ذنب‘‘ میں ادھر اشارہ ہے کہ بدعقیدہ مثلاً تجسیم باری کا