تدریجی ارتقاء
مرزاغلام احمد قادیانی نے پہلے (۱۸۹۰ء تک) مجدد ومامور ہونے کا دعویٰ کیا۔ پھر بمشورہ حکیم نورالدین ۱۸۹۱ء میں مسیح موعودہونے کا دعویٰ کیا اور اپنے دعویٰ کی حمایت میں فتح اسلام نامی کتاب لکھی۔ ۱۹۰۰ء کی بات ہے کہ قادیان (ضلع گورداسپور پنجاب) کی مسجد کے امام عبدالکریم صاحب نے جمعہ کے خطبہ میں آنجہانی مرزاقادیانی کا نام لیا اور ان کے لئے نبی اور رسول کے الفاظ استعمال کئے۔ خطبہ میں ان باتوں کو سن کر مولوی محمد احسن امروہی پیچ وتاب کھانے لگے۔ دوسرے جمعہ میں پھر مولوی عبدالکریم صاحب نے مرزاقادیانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو خدا کا رسول اور نبی مانتا ہوں۔ اگر میں غلطی پر ہوں تو میری اصلاح فرمادیں۔ نماز کے بعد جب مرزاقادیانی جانے لگے تو پھر مولوی عبدالکریم صاحب نے مخاطب کیا تواس کے جواب میں مرزاقادیانی نے کہا: ’’مولوی صاحب ہمارا بھی یہی مذہب اور دعویٰ ہے جو آپ نے بیان کیا۔‘‘ مولوی عبدالکریم اور مولوی محمد احسن صاحب میں اس موضوع پر باتیں تیز ہونے لگیں۔ مرزاقادیانی گھر سے باہر آئے اور ظالم نے یہ آیت پڑھی: ’’یایہا الذین اٰمنوا لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی (القرآن)‘‘ جس میں آوز اونچی کرنے والوں کو ہدایت بھی ہے اور اپنے نبی ہونے کا دعویٰ بھی ہے۔ مرزاقادیانی متعدد مراحل طے کرنے کے بعد نبوت تک پہنچے۔ اس دعوے کے بعد کوئی مسلمان خاموش ہوکر بیٹھ نہیں سکتا تھا۔ مسلمان تو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ حضور اقدس محمد رسول اﷲﷺ خدا کے آخری رسول ہیں اور آپﷺ پر نبوت کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے اور شریعت قیامت تک کے لئے ہر لحاظ سے کامل اور مکمل ہے۔ نہ اس میں کمی کی ضرورت ہے اور نہ ہی زیادتی کی گنجائش ہے۔ اگر مرزاقادیانی کی کتابوں کو پڑھا جائے اور ان کی عیاری کو مرتب کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آنجہانی مرزاقادیانی ایک متوازی نبوت اور متوازی امت قائم کرنا چاہتے ہیں جو نبوت کی طرح حضرت اقدس محمد رسول اﷲﷺ کی نبوت سے کم نہیں اور جو امت کہ امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام سے کم تر نہیں بلکہ فائق ہی ہے۔
اس دعویٰ کے بعد علمائے اسلام پر ان کی بدنیتی اور اسلام کے خلاف ان کی سازش کھل کر سامنے آئی۔ چنانچہ مولوی عبدالحق صاحب غزنوی مقیم امرتسر مرزاقادیانی کی مخالفت میں برابر سرگرم رہے اور اشتہارات کے ذریعہ مرزاقادیانی کے فاسد خیالات کی دھجیاں بکھیرتے رہے اور وہ مباہلہ کے لئے تیار ہوئے جسے مرزاقادیانی نے منظور کیا۔ اس وقت جو اشتہار شائع ہوا اس کا مضمون یہ تھا۔