نیچے ہی رکھ لیتے اور رات بھر تمام کپڑے بستر پر سر اور جسم کے نیچے ملے جاتے۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ دوم ص۱۲۸، روایت نمبر۴۴۴)
اس سلسلہ میں چند ایک مریدان باصفا کی روایت بھی سن لیجئے۔
۷… ’’آپ کو (یعنی مرزاقادیانی کو) شیرینی سے بہت پیار ہے اور مرض بول بھی آپ کو عرصہ سے لگی ہوئی ہے۔ اس زمانہ میں آپ مٹی کے ڈھیلے بعض وقت جیب میں ہی رکھتے تھے اور اسی جیب میں گڑ کے ڈھیلے بھی رکھ لیا کرتے تھے۔‘‘
(ملحقہ حالات مرزاقادیانی براہین احمدیہ ج اوّل ص۶۷، مرتبہ معراج الدین قادیانی)
۸… ’’ایک دفعہ ایک شخص نے بوٹ تحفہ میں پیش کیا۔ آپ نے (مرزاقادیانی نے) اس کی خاطر سے پہن لیا۔ مگر اس کے دائیں بائیں کی شناخت نہیں کر سکتے تھے۔ دایاں پاؤں بائیں طرف کے بوٹ میں اور بایاں پاؤں دائیں طرف کے بوٹ میں پہن لیتے تھے۔ آخر اس غلطی سے بچنے کے لئے ایک طرف بوٹ پر سیاہی سے نشان لگانا پڑا۔‘‘
(منکرین خلافت کا انجام ص۹۶، مصنفہ جلال الدین شمس صاحب)
۹… ’’نئی جوتی جب پاؤں کاٹتی تو جھٹ ایڑی بٹھا لیا کرتے تھے اور اسی سبب سے سیر کے وقت گرد اڑ اڑ کر پنڈلیوں پر چڑھایا کرتی تھی… حضور کبھی تیل سرمبارک پر لگاتے تو تیل والا ہاتھ سرمبارک اور داڑھی مبارک سے ہوتا ہوا بعض اوقات سینہ تک چلا جاتا جس سے قیمتی کوٹ پر دھبے پڑ جاتے۔‘‘ (اخبار الحکم قادیان مورخہ ۲۱؍فروری ۱۹۳۵ئ)
گو اس سلسلہ میں تفصیلات کا دامن زلف یار سے بھی دراز تر ہے۔ تاہم اہل فکر ونظر کے لئے اتنا کافی ہے ؎
دریائے خون بہانے سے اے چشم فائدہ
دو اشک بھی بہت ہیں اگر کچھ اثر کریں
یہ منہ اور مسور کی دال
آہ! انسانیت کی بدقسمتی اور دین کی مظلومی کہ جس ذات شریف کو دسترخوان پر بیٹھ کر روٹی کھانے، چابیاں سنبھالنے، اپنی شلوار کا ازاربند کھولنے،جراب اور جوتا پہننے، کاج میں بٹن دینے، استنجے کے ڈھیلے اور کھانے کے گڑ کو جدا جدا رکھنے حتیٰ کہ سیر کے وقت چلنے اور داڑھی مبارک کو تیل لگانے کی بھی تمیزنہیں وہ دعویٰ کرتے ہیں تو صرف نبوت اور مسیحیت کے نہیں بلکہ افضل الانبیاء سے تخت نبوت ورسالت اور سید المرسلین سے تاج رشد وہدایت چھیننے کے ؎