{(حضرت) محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں۔ ہاں اﷲ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔}
احادیث متواترہ میں بھی آپﷺ کی خاتمیت مختلف انداز سے واضح کی گئی ہے اور شروع سے آج تک پوری امت کا اس عقیدہ پر اجماع ہے کہ سرور کونین، حضرت محمد مصطفیٰﷺ اﷲتعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپ کی ذات سے قصر نبوت تکمیل پذیر ہوچکا ہے۔ اب کسی نبی کی نہ ضرورت ہے نہ امکان ہے اور جو بوالہوس ایسا دعویٰ کرے وہ جھوٹا، افتراء پرداز، مرتد اور ملعون ہے۔
اس جگہ پہنچ کر ایک سوال قدرتی طور پر ابھر کر سامنے آتا ہے کہ یہ صحیح ہے کہ اﷲتعالیٰ کی ہدایت کتاب وسنت کی شکل میں اپنی اصلی صورت میں آج موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گی۔ اس لئے اب کسی بھی طرح کے کسی نئے نبی کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر انبیاء کے بغیر اﷲ کی یہ ہدایت لوگوں تک پہنچائے گا کون؟
حضرات انبیاء کرام کا کام اﷲتعالیٰ سے ہدایات حاصل کر کے لوگوں تک پہنچانا تھا۔ آج چونکہ ہدایات ربانی موجود ہے اس لئے تحصیل دین کی ضرورت تو نہیں ہے مگر تبلیغ دین تو بہرحال ضروری ہے؟ اسی طرح اپنوں اور پرایوں کی چیرہ دستیوں سے… دین کی حفاظت کی بھی ضرورت ہوگی۔ یہ فریضہ کون انجام دے گا؟ اس کا جواب واضح ہے کہ یہ ذمہ داری امت کے سپرد کی گئی ہے۔ اﷲ پاک کا ارشاد ہے: ’’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر وتؤمنون باﷲ (آل عمران:۱۱۰)‘‘ {آپ لوگ (علم الٰہی میں) بہترین امت تھے۔ جو لوگوں کے نفع کے لئے ظاہر کی گئی ہے جو نیک کام کا حکم دیتی ہے اور بری باتوں سے روکتی ہے اور اﷲتعالیٰ پر ایمان رکھتی ہے۔}
حدیث شریف میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ: ’’بلّغوا عنی ولو اٰیۃ‘‘ {میری طرف سے لوگوں کو (دین) پہنچاؤ چاہے ایک ہی آیت ہو۔}
مشہور جملہ جو زبان زد عام وخاص ہے کہ: ’’علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل‘‘ {میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں۔}
یہ جملہ حدیث ہونے کے اعتبار سے توبے اصل ہے۔ ’’قال القاری حدیث علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل لااصل لہ کما قال الدمیری والزرکشی، والعسقلانی (المصنوع فی الاحادیث الموضوع لعلی القاری ص۱۲۳)‘‘