حضرت خلیفہ اوّل (حکیم نورالدین) کو حضور (مرزاقادیانی) چھ ماہ سے زائد تک دیتے رہے اور خود بھی وقتاً فوقتاً مختلف امراض کے دوروں کے وقت استعمال کرتے رہے۔‘‘
(الفضل مورخہ ۱۹؍جولائی ۱۹۲۹ئ)
۲… ’’آپ کی عادت تھی کہ روٹی توڑنے اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرتے جاتے پھر کوئی ٹکڑا اٹھا کے منہ میں ڈال لیتے اور باقی ٹکڑے دسترخوان پر رکھے رہتے۔ معلوم نہیں حضرت مسیح موعود ایسا کیوں کرتے تھے۔ مگر کئی دوست کہا کرتے کہ حضرت صاحب یہ تلاش کرتے ہیں کہ ان روٹی کے ٹکڑوں میں سے کون سا تسبیح کرنے والا ہے اور کون سا نہیں۔‘‘
(الفضل قادیان ۲۲؍مارچ ۱۹۳۵ئ)
۳… صاحبزادہ بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں: ’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ آپ چابیاںازاربند کے ساتھ باندھتے تھے۔ جو بوجھ سے بعض اوقات لٹک آتا تھا اور والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود عموماً ریشمی ازاربند استعمال فرماتے تھے۔ کیونکہ آپ کو پیشاب جلدی جلدی آتا تھا۔ اس لئے ریشمی ازاربند رکھتے تھے۔ تاکہ کھلنے میں آسانی ہو اور گرہ بھی پڑ جائے تو کھولنے میں دقت نہ ہو۔ سوتی ازاربند میں آپ سے بعض وقت گرہ پڑ جاتی تھی تو آپ کو بڑی تکلیف ہوتی تھی۔‘‘
(سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۵۵، روایت نمبر۶۵)
۴… ’’بعض دفعہ جب حضور جراب پہنتے تو بے توجہی کے عالم میں اس کی ایڑی پاؤں کے تلے کی طرف نہیں بلکہ اوپر کی طرف ہو جاتی تھی اور بارہا ایک کاج کا بٹن دوسرے کاج میں لگا ہوتا تھا اور بعض اوقات کوئی دوست حضور کے لئے گرگابی جو تہ ہدیۃً لاتا تو آپ بسا اوقات دایاں پاؤں بائیں میں ڈال لیتے تھے اور بایاں دائیں میں۔ چنانچہ اس تکلیف کی وجہ سے آپ دیسی جوتہ پہنتے تھے۔ اسی طرح کھانا کھانے کا یہ حال تھا کہ خود فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں تو اس وقت پتہ لگتا ہے کہ کیا کھارہے ہیں کہ جب کھانا کھاتے کھاتے کوئی کنکر وغیرہ کا ریزہ دانت کے نیچے آ جاتا ہے۔‘‘
(سیرۃ المہدی حصہ دوم ص۵۸، روایت نمبر۳۷۵)
۵… ’’بعض اوقات زیادہ سردی میں دو دو جرابیں اوپر تلے چڑھا لیتے مگر باوجود جراب اس طرح پہن لیتے کہ وہ پیر پر ٹھیک نہ چڑھتی۔ کبھی تو سرا آگے لٹکتا رہتا اور کبھی جراب کی ایڑی پیر کی پشت پر آ جاتی اور کبھی ایک جراب سیدھی دوسری الٹی۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ دوم ص۱۲۷، روایت نمبر۴۴۴)
۶… ’’کپڑوں کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ کوٹ، صدری، ٹوپی، عمامہ رات کو اتار کر تکیہ کے