ایک طرف مرزاقادیانی برابر مسلمانوں کو انگریزوں کے ساتھ وفاداری کی تعلیم دیتے رہے۔ دل سے مطیعانہ برتاؤ کی تبلیغ کرتے رہے۔ دوسری طرف مرحلہ وار مسلمانوں کے بنیادی عقائد پر شاطرانہ انداز میں حملے شروع کر دئیے اور توقع کے مطابق ایسے لوگ بھی مل گئے جو پیدا تو مسلم گھرانوں میں ہوئے تھے۔ مگر مرزاقادیانی کی طرح تھے بے دین اور مفاد پرست۔ چنانچہ انہوں نے اپنے گرو گھنٹال مرزاغلام احمد قادیانی کے علم وفضل، تقویٰ وطہارت بزرگی اور بیجا طور پر کشف وکرامت کی تشہیر شروع کر دی۔ اس کے استخاروں کو کامیاب، الہامات کو سچے اور دعاؤں کو مستجاب بیان کیا جانے لگا۔ لوگ آنے لگے۔ بے وقوف اور توہم پرست لوگوں کی کبھی کمی نہیں رہی۔ نہ پہلے تھی اور نہ آج ہے۔ پھر یہ تودام ہی ہم رنگ زمین بچھایا گیا تھا۔ کچھ سادہ لوح اور پڑھے لکھے بھی پھنس گئے۔
پہلے مرحلہ میں مرزاقادیانی نے مختلف نفسیاتی پہلوؤں سے کام لے کر اپنے خدا رسیدہ ہونے کا تاثر لوگوں کے ذہن نشین کرایا۔ امام مہدی اور مجدد ہونے کا دعویٰ کیا۔ دوسرے مرحلہ میں مسیح بن گئے۔ نبی ظلی ہوگئے۔ فن کاری دیکھئے! حضرت مسیح علیہ السلام کے آسمان پر زندہ ہونے کے بارے میں قرآنی صراحت کے باوجود حیات مسیح کے تو قائل نہیں لیکن آمد مسیح کے قائل ہیں اور وہ مرزاقادیانی… خود ہیں۔ اس سوال سے بچنے کے لئے کہ جب آپ کے بقول مسیح زندہ ہی نہیں تو آپ مسیح کہاں سے آگئے تو مثیل مسیح کا شوشہ لگا دیا۔ ایسے ہی آنحضرتﷺ کے خاتم النّبیین ہونے پر نصوص قطعیہ موجود ہیں۔ اسی لئے علمائے سلف وخلف شدومد سے ختم نبوت کے عقیدہ کو مدار ایمان قرار دیتے آئے ہیں۔ مگر اس کے باوجود وہ شخص نبی بن بیٹھا اور اس حقیقت کے تازیانہ سے بچنے کے لئے کہ محمدﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ ظلی وبروزی کی اصطلاحیں گھڑ لیں۔ جب کہ نبوت ظلی ومجازی یا بروزی ہوتی ہی نہیں۔ تیسرے مرحلہ میں ظلی وبروزی کا تکلف بھی ختم کر دیا گیا۔ کہتے ہیں: ’’ہو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق‘‘ میرے ہی حق میں فرمایا گیا ہے۔ (ایک غلطی کا ازالہ ص۱، خزائن ج۱۸ ص۲۰۶)
دوسری آیت: ’’محمد رسول اﷲ والذین معہ‘‘ میں محمد رسول اﷲ سے مراد میں ہی ہوں۔ (ایک غلطی کا ازالہ ص۱، خزائن ج۱۸ ص۲۰۷)
شوق فضیلت یا جوش عیاری نے جب مزید ابھارا تو حضرت محمد مصطفیٰﷺ سے بھی افضل ہوگئے۔ کہتے ہیں: ’’لہ خسف القمر المنیر وان لی… خسفا القمر ان المشرقان اتنکر‘‘ اس کے لئے یعنی نبی کریم کے لئے چاند کے خسوف کا نشان ظاہر ہوا اور