رنگ میں افضل قرار دینا، ٹھیک نہیں۔
ممکن ہے ہمارا خیال غلط ہو۔ لیکن ہمارا تجربہ یہی ہے۔ ہمارے نزدیک وہ ایک دہریہ صفت آدمی تھا۔ ایک نہایت فریب کار انسان اس کی ضخیم کتابیں اس کی ذہنی عیاری کی آئینہ دار ہیں۔ اس نے لوگوں کی نفسیات کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ دنیا کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک اکثریت نادان لوگوں کی ہے اور نادان لوگوں کو مختلف طریقوں سے بہکا کر اپنے ساتھ لگا لینا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں۔ اب سوال یہ تھا کہ عزت وشہرت، مال ودولت اور بھرپور مفادات حاصل کرنے کے لئے اسے کون سا طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔ اگر وہ مذہب کے خلاف جھنڈا اٹھا کر سامنے آتا تو اس کے اپنے ہی گھر کے اور خاندان کے لوگ چند قدم بھی آگے نہ پڑھنے دیتے۔ اس شخص نے مسلمانوں کی تفسیات کو بھی اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ یہ ایک ایسی قوم ہے جسے مذہب کے نام پر گرمایا بھی جاسکتا ہے اورٹھنڈا بھی کیا جاسکتا ہے۔ جگایا بھی جاسکتا ہے۔ سلایا بھی جاسکتا ہے۔ چنانچہ اس سے مذہب کی آڑ میں وہ تمام کھیل کھیلے جو آج سب کے سامنے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ سے حکومت برطانیہ کا ہر رخ سے بھرپور تعاون بھی حاصل رہا۔ حکومت اس وقت مسلمانوں کے اتحاد سے اور جذبہ جہاد کی تیز تر لہر سے خائف تھی۔ سید احمد شہیدؒ اور ان کے عظیم ساتھیوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں انگریزی اقتدار کے لئے پریشان کن بنی ہوئی تھیں۔ مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے اور ان کی توجہات کو ملکی اور غیر ملکی مسائل سے ہٹا دینے کے لئے انہیں مسلمانوں میں ایسے ہی ذہین وفطین آدمی کی ضرورت تھی۔ مرزاغلام احمد قادیانی (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۱) میں اقرار کرتے ہیں: ’’میں حکومت برطانیہ کا خود کاشتہ پودا ہوں۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۱) میں لکھا ہے: ’’میں ابتدائی عمر سے اس وقت تک جو قریباً ساٹھ برس کی عمر تک پہنچا ہوں۔ اپنی زبان وقلم سے اس کام میں مشغول ہوں تاکہ مسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی سچی محبت اور خیرخواہی اور ہمدردی کی طرف پھیردوں اور ان کے بعض کم فہموں کے دلوں سے غلط خیال جہاد وغیرہ کے دور کروں جو ان کو دلی صفائی اور مخلصانہ تعلقات سے روکتے ہیں۔‘‘
(تریاق القلوب ص۱۵، خزائن ج۱۵ ص۱۵۵) میں لکھا ہے: ’’میں نے مخالفت جہاد اور انگریز کی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں اور اشتہارات شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ ایسی کتابوں کو تمام عرب ممالک اور مصر وشام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا ہے۔‘‘