یوسف نجّار کو حضرت مسیح کا باپ کہنا ایک جھوٹ، حضرت مسیح کو بڑھئی کہنا دوسرا جھوٹ اور ان کے معجزات کو نجّاری کا کرشمہ کہنا تیسرا جھوٹ۔
۹… ’’بہرحال مسیح کی یہ تربی کارروائیاں زمانہ کے مناسب حال بطور خاص مصلحت کے تھیں۔ مگر یاد رکھنا چاہئے کہ یہ عمل ایسا قدر کے لائق نہیں جیسا کہ عوام الناس اس کو خیال کرتے ہیں۔ اگر یہ عاجز اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو خداتعالیٰ کے فضل وتوفیق سے امید رکھتا تھا کہ ان اعجوبہ نمائیوں میں حضرت ابن مریم سے کم نہ رہتا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۰۹، خزائن ج۳ ص۲۵۸)
حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزات کو ’’تربی کارروائیاں‘‘ کہنا، انہیں مکروہ اور قابل نفرت کہنا صریح بہتان اور تکذیب قرآن ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے برتری کی امید رکھنا اور اس کو فضل وتوفیق خداوندی کی طرف منسوب کرنا صریح کفر اور افتراء علیٰ اﷲ ہے۔
۱۰… ’’اور آپ کی انہیں حرکات کی وجہ سے آپ کے حقیقی بھائی آپ سے ناراض رہتے تھے اور ان کو یقین ہوگیا تھا کہ آپ کے دماغ میں ضرور کچھ خلل ہے اور وہ ہمیشہ چاہتے رہے ہیں کہ کسی شفاخانہ میں آپ کا باقاعدہ علاج ہوشاید خداتعالیٰ شفا بخشے۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۶، خزائن ج۱۱ ص۲۹۰ حاشیہ)
’’یسوع درحقیقت بوجہ مرگی کے دیوانہ ہوگیا تھا۔‘‘
(ست بچن حاشیہ ص۱۷۱، خزائن ج۱۰ ص۲۹۵)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف (نعوذ باﷲ) خلل دماغ، مرگی اور دیوانگی کی نسبت کرنا سفید جھوٹ ہے۔ یہ اور اس قسم کی دیگر تحریریں غالباً مرزاقادیانی نے ’’مراق‘‘ کی حالت میں لکھی ہیں۔ جس کا اس نے خود کئی جگہ اعتراف کیا ہے یہ مرزاقادیانی کے جھوٹ کے تیس نمونے پیش کئے گئے ہیں۔ جن سے معلوم ہوسکتا ہے کہ مرزاقادیانی کو سچائی اور راستی سے کتنی نفرت تھی۔ اس تحریر کو مرزا قادیانی کی ایک عبارت پر عبارت پر ختم کرتا ہوں۔
’’ظاہر ہے کہ جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہو جائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۲۲۲، خزائن ج۲۳ ص۲۳۱)
اﷲتعالیٰ ہر مسلمان کو ایسے جھوٹوں سے بچائے اور مرزائیوں کو بھی اس جھوٹ سے نکلنے کی توفیق ارزانی فرمائے۔ ’’سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون وسلام علی المرسلین والحمد ﷲ رب العلمین‘‘ محمد یوسف عفا اﷲ عنہ، ۲۴؍صفر ۱۴۰۷ھ