۲… ’’لیکن مسیح کی راست بازی اپنے زمانے میں دوسرے راست بازوں سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ یحییٰ نبی کو اس پر (یعنی عیسیٰ علیہ السلام پر) ایک فضیلت ہے۔ کیونکہ وہ شراب نہیں پیتا تھا اور نہ کبھی سنا گیا کہ کسی فاحشہ عورت نے آکر اپنی کمائی کے مال سے اس کے سر پر عطر ملا تھا یا اپنے ہاتھوں یا اپنے سر کے بالوں سے اس کے بدن چھواء تھا یا کوئی بے تعلق جوان عورت اس کی خدمت کرتی تھی۔ اسی وجہ سے قرآن نے یحییٰ کا نام حصور رکھا۔ مگر مسیح کا نام نہ رکھا۔ کیونکہ ایسے قصے اس نام رکھنے سے مانع تھے۔‘‘ (دافع البلاء ص۳، خزائن ج۱۸ ص۲۲۰)
حضرات انبیاء کرام کی طرف فواحش کا منسوب کرنا کفر ہے۔ مرزاقادیانی ایسے قصے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کرتا ہے اور ایسے کفر صریح کے لئے قرآن کریم کے لفظ ’’حصور‘‘ کا حوالہ دیتا ہے۔ یعنی اﷲتعالیٰ کے نزدیک نعوذ باﷲ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان قصوں میں ملوث تھے۔ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر بہتان بھی ہے اور افتراء علیٰ اﷲ بھی۔
۳… ’’اور اس عاجز کو خداتعالیٰ نے آدم مقرر کر کے بھیجا… اور ضرور تھا کہ وہ ابن مریم جس کا انجیل اور فرقان میں آدم بھی نام رکھاگیا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۹۶، خزائن ج۳ ص۴۷۵)
یہ کہنا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام قرآن کریم میں آدم رکھا گیا ہے۔ خالص جھوٹ ہے اور اس مضمون کو انجیل سے منسوب کرنا دوسرا جھوٹ ہے اور یہ کہنا کہ مرزاقادیانی کو اﷲتعالیٰ نے آدم مقرر کر کے بھیجا ہے۔ تیسرا جھوٹ ہے۔
۴… اور مجھے بتلایا گیا کہ تیری خبر قرآن وحدیث میں موجود ہے اور تو ہی اس آیت کا مصداق ہے کہ ’’ھو الذی ارسل رسولہ… کلہ‘‘ (اعجاز احمدی ص۷، خزائن ج۱۹ ص۱۱۳)
کون نہیں جانتا کہ اس آیت کریمہ کا مصداق آنحضرتﷺ کی ذات گرامی ہے۔ پس یہ کہنا کہ تیری خبر قرآن میں ہے ایک جھوٹ۔ حدیث میں ہے دوسرا جھوٹ اور مرزااس آیت کا مصداق ہے۔ تیسرا جھوٹ اور ان تمام باتوں کو مجھے بتلایا گیا ہے۔ کہہ کر اﷲتعالیٰ کی طرف منسوب بدترین افتراء علیٰ اﷲ ہے۔
۵… ’’قادیان میں خداتعالیٰ کی طرف سے اس عاجز کا ظاہر ہونا الہامی نوشتوں میں بطور پیش گوئی پہلے سے لکھا گیا تھا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۷۳ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۱۳۹)
یہ بھی سفید جھوٹ اور افتراء علیٰ اﷲ ہے۔
۶… ’’لیکن ضرور تھا کہ قرآن شریف کی وہ پیشین گوئیاں پوری ہوتیں جس میں لکھاگیا تھا