صفت یہ کہ اس کی پیدائش میں بھی جوڑے کے طور پر پیدا ہوگا۔ سو یہ سب نشانیاں ظاہر ہوگئیں۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۸۸، خزائن ج۲۱ ص۳۵۹)
اس فقرہ میں مرزاقادیانی نے چھ باتیں احادیث صحیحہ کی طرف منسوب کی ہیں۔ حالانکہ ان میں سے ایک بات بھی کسی حدیث صحیح میں نہیں آئی۔ اس لئے اس فقرے میں اٹھارہ جھوٹ ہوئے۔
۴… ’’ایک مرتبہ آنحضرتﷺ سے دوسرے ملکوں کے انبیاء کی نسبت سوال کیاگیا تو آپ نے یہی فرمایا کہ ہر ملک میں اﷲتعالیٰ کے نبی گذرے ہیں اور فرمایا کہ: ’’کان فی الہند نبیاً اسود اللون اسمہ کاہناً‘‘ یعنی ہند میں ایک نبی گذرا جو سیاہ رنگ کا تھا اور نام اس کا کاہن تھا۔ یعنی کنہیا جس کو کرشن کہتے ہیں۔‘‘ (ضمیمہ چشمہ معرفت ص۱۰، خزائن ج۲۳ ص۳۸۲)
مرزاقادیانی کی ذکر کردہ حدیث کسی کتاب موجود نہیں۔ اس لئے یہ خالص افتراء ہے۔ ظالم کو عربی کی صحیح عبارت بھی نہ بنانی آئی۔ سیاہ رنگ شاید اپنی تصویر دیکھ کر یاد آگیا۔
۵… ’’اور آپﷺ سے پوچھا گیا کہ زبان پارسی میں بھی کبھی خدا نے کلام کیا ہے تو فرمایا کہ ہاں خدا کلام زبان پارسی میں بھی اترا ہے۔ جیسا کہ وہ اس زبان میں فرماتا ہے۔ ’’ایں مشت خاک را گر نہ بخشم چہ کنم‘‘ (ضمیمہ چشمہ معرفت ص۱۱، خزائن ج۲۳ ص۳۸۲)
یہ مضمون بھی کسی حدیث میں نہیں۔ خالص جھوٹ اور افتراء ہے۔
۶… ’’آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ جب کسی شہر میں وبا نازل ہو تو اس شہر کے لوگوں کو چاہئے کہ بلاتوقف اس شہر کو چھوڑ دیں۔‘‘ (ریویو ج۶ نمبر۹ ص۳۶۵، بابت ماہ ستمبر ۱۹۰۷ئ)
وبا کی جگہ کو بلاتوقف چھوڑ دینے کا حکم کسی حدیث میں نہیں۔ یہ خالص مرزائی جھوٹ ہے۔ بلکہ اس کے برعکس حکم ہے کہ اس جگہ کو نہ چھوڑا جائے۔ ’’واذا وقع بارض وانتم بہا فال تخرجوا فراراً منہ‘‘ (متفق علیہ، مشکوٰۃ ص۱۳۵)
۷… ’’افسوس ہے کہ وہ حدیث بھی اس زمانے میں پوری ہوئی جس میں لکھا تھا کہ مسیح کے زمانے کے علماء ان سب لوگوں سے بدتر ہوں گے جو زمین پر رہتے ہیں۔‘‘
(اعجاز احمدی ص۱۳، خزائن ج۱۹ ص۱۲۰)
مسیح کے زمانے کے علماء کے بارے میں یہ بات ہرگز نہیں فرمائی گئی۔ یہ ایک طرف آنحضرتﷺ پر افتراء ہے اور دوسری طرف علمائے امت پر صریح بہتان ہے۔